حج کیا ہے؟ ایک مکمل اسلامی وضاحت
حج کی لغوی اور شرعی تعریف
لغوی طور پر “حج” کا مطلب ہے: “ارادہ کرنا” یا “کسی جگہ کی زیارت کا پختہ ارادہ کرنا”۔
اسلامی اصطلاح میں حج اس عبادت کو کہتے ہیں جس میں خاص ایام میں بیت اللہ (کعبہ) کی زیارت کی جاتی ہے اور مخصوص مناسک ادا کیے جاتے ہیں، جیسے کہ کعبہ کا طواف اور میدانِ عرفات میں وقوف۔
کلاسیکی عربی کے مطابق، حج کسی عظیم اور محترم مقام کی زیارت کے ارادے کو کہا جاتا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں حج کا مطلب ہے کہ مخصوص اوقات میں مخصوص طریقے سے اللہ کے گھر (کعبہ) کی زیارت کی جائے، اور طواف، سعی، اور عرفات میں وقوف جیسے ارکان ادا کیے جائیں۔
ج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جن پر دین اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ جیسے زکوٰۃ کی فرضیت قرآن سے ثابت ہے، ویسے ہی حج کی فرضیت بھی قرآن سے قطعی طور پر ثابت ہے۔
امام ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
“حج اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ لغوی طور پر اس کا مطلب ہے ‘ارادہ’ یا ‘جان بوجھ کر کسی جانب روانہ ہونا’۔ شریعت کی اصطلاح میں یہ ان مخصوص دنوں میں بیت اللہ کی زیارت اور عبادت کے مخصوص افعال کی ادائیگی کو کہتے ہیں۔”
(لسان العرب، 3:52)
مقررہ حج ایام کے علاوہ کعبہ کی زیارت، مخصوص شرائط و مناسک کے ساتھ، عمرہ کہلاتی ہے۔ شریعت میں عمرہ ایسی عبادت ہے جو سال کے کسی بھی وقت مخصوص افعال کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔
(الجزیری، الفقہ على المذاهب الأربعة، 1:1121)
“حج” کے لفظ کی ابتدا
امام قرطبی فرماتے ہیں:
“عربوں کے درمیان حج ایک معروف اور رائج عمل تھا۔ اسلام نے انہیں اسی عمل کو فرض قرار دے کر دیا جس کے وہ عادی تھے۔”
(تفسیر القرطبی، 2/92؛ احکام القرآن از ابن العربی، 1/276)
ملا علی قاری لکھتے ہیں۔:
“حج کا اصل مفہوم ارادہ کرنا ہے۔ جب کوئی کسی جگہ جانے کا ارادہ کرتا ہے تو کہا جاتا ہے: ‘حجَجتُ إلیٰ کذا’۔ اسلامی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے مخصوص اعمال کے ساتھ اللہ کے گھر کی زیارت۔ اس لفظ کے دونوں تلفظ درست ہیں — یعنی ‘حَج’ (حاء پر زبر) اور ‘حِج’ (جیم پر زیر)۔”
(عمدة القاری، 14:172، بیروت)
حج کی فرضیت
عربی متن:
الْحَجُّ وَاجِبٌ عَلَى الْأَحْرَارِ الْبَالِغِينَ الْعُقَلَاءِ الْأَصْحَاءِ إِذَا قَدَرُوا عَلَى الزَّادِ وَالرَّاحِلَةِ
ترجمہ:-
حج ہر ایسے آزاد، بالغ، عاقل، اور جسمانی طور پر صحت مند مسلمان پر فرض ہے جس کے پاس اپنے اخراجات اور سواری کی طاقت ہو، اور اس کے اہلِ خانہ کی ضروریات پوری ہو رہی ہوں۔ اس سفر کا راستہ بھی محفوظ ہونا چاہیے۔ عورت کے لیے شرط ہے کہ اس کے ساتھ اس کا شوہر یا محرم ہو۔ اگر مکہ تک کا سفر تین دن یا اس سے زیادہ ہو، تو عورت بغیر محرم کے سفر نہیں کر سکتی۔
فقہائے اربعہ کے اقوال
٭حنفی فقہ
ملا علی قاری لکھتے ہیں:-
“قرآن، سنت اور اجماع سے حج کی فرضیت ثابت ہے۔ قرآن کی آیت ‘وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ’ میں لفظ ‘علیٰ’ وجوب (فرضیت) پر دلالت کرتا ہے۔”
(شرح الوقایہ، 1/450)
٭شافعی فقہ
امام نووی فرماتے ہیں:-
“حج اسلام کا ایک رکن ہے اور فرض ہے۔ یہاں حرف عطف صرف ترتیب کے لیے نہیں، بلکہ اس رکن کی بنیادی حیثیت کو بیان کرتا ہے۔”
(المجموع، 4/7)
٭مالکی فقہ
امام قرافی لکھتے ہیں:-
“قرآنی الفاظ وجوب کے وصف کے ساتھ آئے ہیں، جو حج کی فرضیت کو قطعی ثابت کرتے ہیں۔”
(الذخیرہ، 3/167)
حج کے فرض ہونے کی شرائط
حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا:
“حج کب فرض ہوتا ہے؟”
آپ ﷺ نے فرمایا: “زادو راحلہ کے ساتھ۔”
(ترمذی، ابن ماجہ)
یہ روایت امام مالک کے اس قول کے خلاف ہے جنہوں نے کہا کہ اگر کسی کے پاس آمدن کے ذرائع ہوں تو وہ پیدل بھی حج کرے۔
حج کے فرض ہونے کی بنیادی شرائط
٭اسلام – غیر مسلم پر حج فرض نہیں۔
٭آزادی – غلام پر حج فرض نہیں۔
٭عقل – پاگل یا بے ہوش شخص پر فرض نہیں۔
٭بلوغت – نابالغ بچے پر حج فرض نہیں۔
٭جسمانی طاقت – بیمار، معذور یا اندھے پر فرض نہیں۔
٭مالی وسعت – زاد راہ اور سواری کا انتظام ہو۔
٭سفر کی سلامتی – راستہ محفوظ ہو۔
٭عورت کے لیے محرم – تین دن یا زیادہ سفر میں محرم کا ہونا ضروری ہے۔
اگر کوئی بچہ یا غلام حالتِ احرام میں ہو اور بعد میں بالغ یا آزاد ہو جائے، تو وہ حج فرض کی ادائیگی کے لیے دوبارہ حج کرے گا۔
حج اسلام کے ان عظیم ارکان میں سے ہے جس کی فرضیت قرآن، سنت اور امت کے اجماع سے قطعی طور پر ثابت ہے۔ یہ محض ایک رسمی عبادت نہیں بلکہ روحانی، اخلاقی، اور اجتماعی پاکیزگی کا ایک مکمل نظام ہے۔ اس کے لغوی و شرعی معانی، فرض ہونے کی شرائط، اور فقہی آراء کو سمجھنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حج انتہائی اخلاص، تیاری، اور شعور کے ساتھ ادا کیا جانا چاہیے۔
ہر وہ مسلمان جو حج کی شرائط پوری کرتا ہو، اس پر حج فوراً فرض ہے۔ بلا وجہ تاخیر کرنا گناہ کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مومن اپنی اس اہم ذمہ داری کو پہچانے اور پہلے موقع پر اسے ادا کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حج کی توفیق دے، اور اس کے ظاہر و باطن کے انوار سے ہمیں مالا مال فرمائے۔ آمین۔
یہ معلوماتی و روحانی بالگ حضرت سرکار پیر ابونعمان رضوی سیفی صاحب کی ترتیب و تحریر کانتیجہ ہے۔ جو امت مسلہ کی دینی رہنمائ کے جزبے سے سرشار ہیں ۔اگر آپ کو یہ مضمون مفید لگا ہو تو برائے مہربانی اس پر تبصرہ کریں اور اپنے دوستوں کے ساتھ ضرور شیئر کریں تا کہ یہ پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے