قربانی کا شرعی حکم

قربانی کا شرعی حکم

لفظ “قربانی” سنتے ہی دل میں ایک خاص سی عقیدت اور احساس جاگتا ہے۔ یہ محض جانور ذبح کرنے کا عمل نہیں، بلکہ ایک گہری روحانی علامت ہے، جو ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتی ہے کہ سچی عبادت وہ ہے جس میں ہم اپنی چاہتیں، اپنی محبتیں اور اپنے نفس کی خواہشات اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ “قربانی” کا لفظ عربی سے ماخوذ ہے، جس کی جڑ “ق-ر-ب” (قرب) ہے، اور اس کا مطلب ہے “نزدیکی” یا “قریب ہونا”۔ یعنی، قربانی وہ عمل ہے جو ہمیں اللہ کے قریب لے جاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں بھی اس لفظ کا استعمال ہوا ہے، جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کی قربانی کا واقعہ سورۃ المائدہ میں مذکور ہے، جہاں فرمایا: “إذ قربا قربانًا…” یعنی “جب دونوں نے قربانی پیش کی…”۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل قربانی وہ ہے جو تقویٰ اور خلوصِ نیت کے ساتھ کی جائے، نہ کہ صرف ظاہری عمل۔ وقت کے ساتھ، یہی عربی لفظ “قربان” فارسی اور اردو میں “قربانی” کی شکل اختیار کر گیا، اور آج یہ لفظ ہمارے دینی و ثقافتی شعور کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ میرے لیے ذاتی طور پر قربانی کی اصل روح یہی ہے: اپنے دل کو اللہ کے قریب لانے کی کوشش — چاہے وہ کسی چیز کو چھوڑنا ہو، معاف کرنا ہو، یا اپنا وقت، مال اور جذبہ کسی کی بھلائی کے لیے وقف کرنا ہو۔

قربانی کی اصل کیا ہے اور یہ با قاعدہ کب سے شروع ہوئی

قربانی در اصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت مبارکہ ہے جیسا کہ ابن ماجہ باب ثواب الاضحیہ ) میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صل اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں۔؟ آپ لیا ہم نے ارشاد فرمایا : یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔اور قربانی ہمارے پیارے آقا ملایا اور صحابی کرام کی بھی سنت مبارکہ ہے جیسا کہ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ﷺ مدینہ منورہ میں دس سال قیام پذیر ر ہے اور آپ ( ہر سال ) قربانی فرماتے ،اور ابن ماجہ میں ہے کہ محمد بن سیرین نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا قربانی واجب ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ، اسے رسول اللہ صلی ﷺ اور آپ کے اصحاب نے بھی کیا اور یہی سنت جاری ہے ،،

قربانی کی ابتداء

اس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یوم ترویہ کی رات خواب دیکھا کہ ایک کہنے والا کہہ رہا ہے کہ (اے ابراہیم علیہ السلام) آپ کا رب آپ کو بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم فرما رہا ہے یہی خواب آپ نے اگلی دوراتوں میں مزید ملاحظہ فرمایا: چنانچہ اس کے اللہ تعالی کی جانب سے ہونے کا کامل یقین فرماتے ہوئے آپ نے اپنے صاحبزادے کو اس کے بارے میں مطلع کیا فرمانبردار بیٹے نے فوراً اظہار رضا مندی فرماتے ہوئے خود کو قربانی کے لئے پیش کر دیا ۔ آپ اپنے صاحبزادے کومنٹی کی وادی میں لے گئے اور چہرے کے بل لٹا دیا، تاکہ چہرے پر نگاہ پڑنے کی صورت میں ، ، شفقت پدری،، کے باعث ، آزمائش پر پورا اتر نے کے عزم مصمم میں لغزش میں واقعہ نہ ہو پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر چھری چلا دی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے چھری اپنا کام نہ کر سکی ، پھر اللہ تعالیٰ نے ایک جنتی مینڈھا ، حضرت اسمعیل علیہ السلام کے فدیے کے طور پر بھیجا، جسے آپ نے اپنے دست مبارک سے ذبح فرما کر قیامت تک آنیوالے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے اور اس کے احکام پر خوش دلی کے ساتھ عمل پیرا ہو کر اس کی بارگاہ میں مقبول ہونے کا عظیم عملی درس عطا فرمایا ،،

( تفسیر صاوی جلد ۵)

قرآن کریم میں ،، پارہ نمبر 23 ، سورۃ الصفت کی نمبر101سے لیکر 111 تک یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے،

فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ، فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ، فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ۔فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ، وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ، قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ، إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ، وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ، وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ، سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ، كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ، إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ۔

ترجمہ : پس ہم نے اسے مژدہ سنایا ایک حلیم فرزند کا پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہو گیا کہا اے میرے بیٹے اسمعیل علیہ السلام) میں نے خواب دیکھا میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے۔ کہا اے میرے باپ کیجئےجس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے اللہ نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ، اور ہم نے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم بیشک تو نے خواب سچ کر دکھایا ، ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو ، بیشک یہ روشن جانچ تھی ، اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے کر اسے بچالیا ، اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی ، سلام ہو ابراہیم پر ، ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو ، بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجے کے کامل ایمان بندوں میں ہیں

( تفسیر طبری تفسیر در منثور )

 فرض، سنت یا نفل؟ (دلائل، شرائط، اور وضاحت کے ساتھ)

 قربانی محض ایک رسم یا روایتی عمل نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کا ایک عظیم ذریعہ ہے۔ ہر سال عیدالاضحیٰ پر لاکھوں مسلمان جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، لیکن کیا ہر مسلمان پر قربانی واجب ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں اسلامی فقہ، قرآن و حدیث کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا۔ آئیے اس مضمون میں تفصیل سے جانتے ہیں کہ قربانی کن شرائط کے ساتھ واجب ہوتی ہے، اور کن پر صرف نفل یا سنت رہتی ہے۔

: قربانی کا شرعی حکم

قربانی کبھی واجب ہوتی ہے، اور کبھی صرف سنت مؤکدہ یا نفل۔

احناف کے نزدیک، صاحبِ استطاعت (یعنی شرعی نصاب کا مالک) پر قربانی واجب ہے۔ اس پر درج ذیل حدیث دلیل ہے:

فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ

ترجمہ: “جو وسعت رکھتا ہو اور قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔”

(ابن ماجہ، حدیث 3123)

 کن لوگوں پر قربانی واجب ہے؟

قربانی کے واجب ہونے کے لیے درج ذیل چار شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

٭مسلمان ہونا

٭مقیم ہونا (مسافر نہ ہو)

٭بالغ ہونا

٭مالکِ نصاب ہونا

اگر یہ تمام شرائط موجود ہوں، تو قربانی واجب ہے، ورنہ سنت یا نفل شمار ہوگی۔

تفصیلی وضاحت

٭مسلمان ہونا:

قربانی صرف مسلمان پر واجب ہے۔ غیر مسلم پر نہیں۔

٭مقیم ہونا:

مسافر پر قربانی واجب نہیں۔

شرعی مسافر وہ ہے جو اپنے شہر سے 92 کلومیٹر (ساڑھے ستاون میل) دور سفر کا ارادہ کرے اور پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ رکھے۔

٭بالغ ہونا:

قربانی بالغ مرد و عورت پر واجب ہے۔ نابالغ بچے پر واجب نہیں، اگرچہ ان کی طرف سے والدین نفل قربانی کر سکتے ہیں۔

٭مالکِ نصاب ہونا:

یعنی وہ شخص جس کے پاس:

ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی

یا ان کے برابر مال، نقدی، یا زائد از ضرورت سامان موجود ہواور اس پر ایسا قرض نہ ہو جو اس مال کو کم کر دے۔

قرآنی اشارہ:

“فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ”

ترجمہ: “پس اس (قربانی) میں سے خود بھی کھاؤ اور محتاج و فقیر کو بھی کھلاؤ۔

(سورۃ الحج، 28)

ضروری وضاحت:

ضروریاتِ زندگی میں وہ اشیاء شامل ہیں جن کے بغیر زندگی دشوار ہو جائے، جیسے:

٭گھر

٭کپڑے

٭سواری

٭پیشہ ورانہ سامان

٭دینی کتابیں

ضروریات میں شامل نہیں:

٭ٹی وی، وی سی آر، ڈیکوریشن پیس

٭کھیل کود کا سامان

٭اضافی مکان یا خالی پلاٹ

٭تفریحی کمپیوٹر

٭فالتو کپڑے، تصاویر، ناولز

فقہائے کرام کی وضاحت

فقہاء نے یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کے گھر کا ایک حصہ سردیوں یا گرمیوں میں استعمال ہی نہیں ہوتا، اور اس کی مالیت نصاب کے برابر ہے، تو وہ بھی “زائد از ضرورت” میں شمار ہوگا، اور اس پر قربانی واجب ہوگی۔

بالغ ہونا

نابالغ پر قربانی واجب نہیں، اگرچہ وہ صاحبِ نصاب ہی کیوں نہ ہو۔

یاد رکھئے! شرعی لحاظ سے مرد کی بلوغت کی کم از کم عمر 12 سال اور عورت کی 9 سال ہے۔ اس سے پہلے لڑکا یا لڑکی ہرگز بالغ قرار نہیں دیے جا سکتے۔ پھر 9 یا 12 سال سے لے کر 15 سال کے درمیان جب بھی بلوغت کی علامات ظاہر ہوں، تو وہ شرعاً بالغ شمار ہوں گے۔

بلوغت کی علامات درج ذیل ہیں:

٭سوتے یا جاگتے میں احتلام یا انزال ہو جانا

٭عورت کو حیض (ماہواری) آنا

٭عورت کا حاملہ ہو جانا

٭مرد کا کسی عورت کو جماع کے ذریعے حاملہ کر دینا

٭اگر لڑکا یا لڑکی خود اپنے بالغ ہونے کا اقرار کریں، اور ان کے ظاہر حال سے اس کی تردید نہ ہو، تو وہ بھی بالغ شمار کیے جائیں گے۔

اور اگر ان میں سے کوئی علامت ظاہر نہ ہو، تو 15 سال مکمل ہوتے ہی شرعاً بالغ اور بالغہ قرار پائیں گے۔

یاد رکھئے کہ:

مرد کے چہرے پر داڑھی مونچھ نکل آنا اور عورت کے پستانوں میں ابھار آ جانا، شرعی بلوغت کی علامت شمار نہیں ہوتے۔

 حوالہ:

(فتاویٰ رضویہ (قدیم)، جلد ہشتم، صفحہ نمبر 224، بحوالہ در مختار و فتاویٰ عالمگیری)

قربانی کے وجوب کے لیے شرائط کا وقت

سوال:

قربانی کے واجب ہونے کے لیے ان شرائط کا کس وقت موجود ہونا ضروری ہے؟

جواب:

قربانی کا وقت 10 ذوالحجہ کی صبح صادق سے شروع ہو کر 12 ذوالحجہ کے غروبِ آفتاب تک ہے، یعنی تین دن اور دو راتیں۔

ان مخصوص اوقات میں جس شخص میں تمام شرائط (اسلام، بلوغت، اقامت، نصاب کا مالک ہونا) پائی جائیں، اس پر قربانی واجب ہوگی۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ گر کوئی شخص پورے سال “غنی” تھا، لیکن قربانی کے ایام میں نصاب کا مالک نہ رہا، تو اس پر قربانی واجب نہیں اور اگر کوئی شخص پورے سال “فقیر” یا محتاج رہا، لیکن ان دنوں میں نصاب کے برابر مال حاصل ہو گیا، تو اس پر قربانی واجب ہو گی۔مزید یہ کہ زکوٰۃ کے لیے مال پر سال گزرنا شرط ہے، لیکن قربانی کے لیے ایسا کوئی شرط نہیں۔

قربانی کے وجوب پر دلائل

سوال:

کیا قربانی کے واجب ہونے پر قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت موجود ہے؟

جواب:

جی ہاں، قربانی کے وجوب پر قرآن و حدیث سے متعدد دلائل موجود ہیں، جن میں سے چند اہم دلائل ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں:

دلیل نمبر 1: قرآن کریم سے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ

“پس تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔”

(سورۃ الکوثر، آیت 2، پارہ 30)

وضاحت:

اس آیت مبارکہ میں لفظ “انحر” فعلِ امر ہے، اور اصولِ فقہ کے مطابق جب فعلِ امر مطلق آئے (بغیر کسی قید و شرط کے) تو وہ وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ قربانی واجب ہے۔

دلیل نمبر 2: حدیث مبارکہ

حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

ہم عرفہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے پاس کھڑے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا:اے لوگو!

‘ہر سال ہر گھر والے پر ایک قربانی اور عتیرہ ہے۔ جانتے ہو عتیرہ کیا ہے؟ وہی جسے تم رجبیہ کہتے ہو۔

(سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا)

وضاحت:

رجبیہ” وہ قربانی تھی جو اہلِ عرب ماہِ رجب کے پہلے عشرے میں کیا کرتے تھے۔ اس مخصوص قربانی (عتیرہ) کا حکم بعد میں منسوخ کر دیا گیا، جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کی تصریح موجود ہے۔ لیکن قربانی (عید الاضحی کی) کا حکم برقرار رہا، جس سے اس کا وجوب واضح ہوتا ہے۔

دلیل نمبر 3: قربانی سے انکار پر وعید

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“جو شخص استطاعت رکھتا ہو اور پھر بھی قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔”

(سنن ابن ماجہ، کتاب الاضاحی)

وضاحت:

اس حدیثِ مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا، اور ناراضگی کا یہ انداز اسی وقت اختیار کیا جاتا ہے جب کسی چیز کا ترک کرنا شرعاً سنگین ہو۔ اس سے بھی قربانی کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔

دلیل نمبر 4: قربانی میں وقت کی پابندی

حضرت جُندب بن سفیان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

“میں عید الاضحی کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھا۔ آپ ﷺ نے نماز کے بعد ایک ذبح شدہ بکری دیکھی تو فرمایا:

‘جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کی ہے، وہ اس کی جگہ دوبارہ قربانی کرے۔ اور جس نے ابھی تک قربانی نہیں کی، وہ اللہ کا نام لے کر قربانی کرے۔”

(صحیح مسلم، کتاب الأضحیۃ، باب وقتها)

وضاحت

اگر قربانی واجب نہ ہوتی تو رسول اللہ ﷺ دوبارہ قربانی کا حکم نہ دیتے۔ اس سے واضح ہوا کہ قربانی صرف ایک مستحب عمل نہیں، بلکہ ایک شرعی فریضہ ہے جس کے مخصوص ضوابط ہیں۔

فقیر اور عورتوں پر قربانی

سوال: کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے کہ شرعی فقیر پر قربانی واجب ہو جائے؟

جواب: جی ہاں دو صورتیں ہیں

٭ جبکہ فقیر نے قربانی کی منت مانی ہو

٭اگر فقیر نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو اس پر اس جانور کی قربانی واجب ہو جائے گی ۔

 (فتاوی عالمگیری جلد پنجم کتاب الاضحيه )

سوال: کیا عورتوں پر بھی قربانی واجب ہوتی ہے؟

جواب: جی ہاں، اگر کسی عورت میں مذکورہ شرائط پائی جائیں تو اس پر بھی اسی طرح قربانی واجب ہے ، جیسے مردوں پر واجب ہے۔

(در مختار – جلد ثانی – کتاب الاضحیہ)

سوال: اگر کسی فقیر کے پاس کوئی جانور پلا ہوا تھا۔ اس نے اس کی قربانی کی نیت کر لی تو کیا اب بھی قربانی واجب ہوگئی ؟

جواب: جی نہیں ، فقیر کے لئے خریدتے وقت قربانی کی نیت کا اعتبار ہے

چنانچہ اگر خریدتے وقت یہ نیت نہ تھی ، بعد میں ارادہ ہوا ، تو اب قربانی واجب نہیں اگر کرے گا بھی تو نفل کا ثواب پائے گا۔

(فتاوی عالمگیر کی ۔ جلد پنجم ۔ کتاب الاضحیہ )

سوال: اگر کسی شخص کے پاس نصاب کے برابر سامان موجود ہے،لیکن نقد رقم با اکل نہیں کہ جانور خرید سکے، تو کیا کرے۔

جواب: اگر ممکن ہو، تو کسی سے قرض لے کر قربانی کرلے بعد میں لوٹا دے، یا گھر کا کوئی سامان بیچ کر بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔

دوسرے کی طرف سے قربانی کی ادائیگی

سوال : بعض لوگ اس طرح کرتے ہیں کہ مثلاً ایک سال اپنی طرف سے قربانی کر لی، دوسرے سال زوجہ کی طرف سے ، تیسرے سال کسی اور کے نام کی، کیا یہ طریقہ درست ہے؟ 

جواب: اصل مسئلہ یہ ہے کہ قربانی کے تین دنوں کے کسی بھی حصے میں ، مذکورہ شرائط گھر کے جس جس فرد میں جمع ہو گئیں اس اس پر قربانی واجب ہوگی۔ مثال کے طور پر گھر میں چار افراد ہیں۔

٭باپ۔۔۔۔

٭ماں۔۔۔۔

٭بالغ بیٹا۔۔۔۔۔

          ٭بالغ بیٹی۔۔۔۔

پھر قربانی کے تین دنوں میں سے کسی بھی دن کے کسی بھی حصے میں ان چاروں میں یہ تمام شرائط پائی گئیں، تو ان سب پر اپنے اپنے حصے کی قربانی واجب ہوگی۔ اور بالفرض ان تین دنوں میں صرف ماں میں شرطیں موجود ہیں ، تو صرف اس پر قربانی واجب ہو گی باقی افراد پر نہیں۔

اور مثلاً ہر سال صرف باپ میں شرائط جمع موجود ہیں تو صرف اس پر قربانی واجب ہو گی دوسروں پر نہیں ۔ اب فرض کریں کہ یہ چاہتا ہے کہ اس سال زوجی کی طرف سے قربانی کرے تواسے دو جانور لانے ہوں گے ایک اپنی طرف سے واجب او ادا کرنے کے لئے اور دو سر از وجہ کے لئے ( بطور نفل )

اور اگر ایسی صورت میں فقط ایک ہی جانور زوجہ کی طرف سے ذبح کیا تو یہ نفل قربانی ہوگی ، کیونکہ زوجہ میں شرائط نہ تھیں اور خود یہ شخص واجب ترک کرنے کی بنا پر گناہگار ہوگا ۔

 (ماخوذ از فتاوی عالمگیری جلد پنجم – کتاب الاضحیہ )

ایک مفید مشورہ: آپ کی خدمت میں ایک مخلصانہ مشورہ پیش ہے کہ آپ جب بھی قربانی کے دن پائیں تو کسی سنار سے ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت معلوم کر لیں ۔ پھر گھر کے ہر فرد میں مذکورہ شرائط تلاش کریں ، جس جس میں شرائط پائی جائیں ان کی طرف سے خوش دلی سے قربانی ادا فرمائیں ، ورنہ گناہگار ہوتے رہیں گے۔

سوال: کیا اپنے بالغ بیٹا ، بیٹی یا زوجہ کی طرف سے ، ان کی بغیر اجازت قربانی کر دینے کی صورت میں ان کی طرف سے واجب ادا ہو جائے گا ؟

جواب: اگر ان پر قربانی واجب ہو چکی تھی اور والد نے بغیر اجازت ان کی جانب سے جانور ذبح کر دیا تو یہ قربانی ان کی جانب سے ادا نہ ہوگی ، کیونکہ بالغ کی جانب سے کوئی مالی عبادت اداکرنے سے قبل اس کی اجازت ضروری ہے ۔

( فتاوی عالم گیری )

ہاں اگر کسی مقام پر یہ صورت ہو کہ کسی بالغ نے اپنے مالی عبادات کے معاملات کسی کے سپرد کئے ہوئے ہیں ۔ مثلاً باہر کے ملک میں گئے ہوئے بیٹے کی جانب سے گھر والے ہر سال زکوۃ و فطرہ و قربانی کا اہتمام کر دیا کرتے ہیں اور یہ بات بیٹے کو بھی معلوم ہے تو اب اگر قربانی کے لئے واضح اجازت نہیں پائی گئی لیکن بیٹے کا گھر والوں کو مالی معاملات طے کرنے کا اختیار سونپنا ہی اجازت پر دلالت کر رہا ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top