توکل کی حقیقت
قرآنِ مجید میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ توکل کے بارے میں فرماتا ہے:
“حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ”
ترجمہ: اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔
توکل ایک ایسا باطنی حال ہے جو ایمان کا پھل ہے، اور ایمان کے کئی دروازے ہیں، لیکن ان میں سے دو پر ایمان رکھنا توکل کی بنیاد ہے:
اللہ کی وحدانیت (توحید)۔*
اس کے فضل اور رحمت پر مکمل بھروسہ۔*
اس کے فضل اور رحم پر مکمل بھروساتوحید کی تفصیل طویل ہے اور اس کا علم تمام علوم کا منتہا ہے۔ لیکن ہم صرف اس اصل کو بیان کریں گے جس پر سارا دار و مدار ہے۔ توحید کے چار درجے ہیں، اور اس کی ایک اصل ہے اور پھر اس اصل کی بھی ایک اصل ہے۔ اسی طرح توحید کا ایک چھلکا ہے اور پھر اس چھلکے کا بھی ایک چھلکا ہے۔ گویا توحید کے دو مغز (core) اور دو چھلکے (shell) ہیں۔ اس کی مثال ایک کچی اخروٹ جیسی ہے جس میں دو چھلکے اور ایک مغز ہوتا ہے، اور اس کا رنگ بھی اسی مغز کا رنگ ہوتا ہے۔
درجہ نمبر 1
جب کوئی شخص دل سے مان کر “لا الٰہ الا اللہ” کہتا ہے، جیسے عام لوگ یا خطیب کہتے ہیں، یعنی کسی خاص قسم کی دلیل سے یقین رکھنا۔
درجہ نمبر 2
اس کلمہ کے معنیٰ کو دل سے اس طرح ماننا جیسے اہلِ ایمان مانتے ہیں، یعنی اہلِ علم یا متکلمین کی طرح، جو کسی خاص قسم کی دلیل و برہان کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں۔
درجہ نمبر 3
مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سب کی اصل ایک ہی ہے اور فاعل ایک کے سوا کوئی نہیں۔ کوئی دوسرا مؤثر نہیں، اور یہ ایک ایسا نور ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے اور اسی نور کے ذریعے یہ مشاہدہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ عام لوگوں یا خطیبوں کے عقیدے جیسا نہیں ہوتا کیونکہ ان کا یقین تقلید یا دلیل کے ذریعے دل پر بیٹھنے والی ایک گرہ ہوتا ہے۔ لیکن جب یہ مشاہدہ حاصل ہوتا ہے تو دل کھل جاتا ہے، اور یہ نہ صرف ان گرہوں کو کھول دیتا ہے بلکہ زنجیروں کو بھی توڑ دیتا ہے۔
مثال:
عام لوگوں کی تقلید کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص اس لیے یقین کرے کہ فلاں آدمی گھر پر ہے کیونکہ کسی نے ایسا کہا، یعنی اس نے اپنے والدین سے جو سنا، اسی پر ایمان لایا۔
خطیب یا متکلم کے یقین کی مثال یوں ہے جیسے کوئی شخص دروازے پر گھوڑا دیکھ کر یقین کرے کہ فلاں آدمی گھر پر ہے، کیونکہ اس نے اس پر دلیل قائم کی ہے۔
اور جس نے اس آدمی کو خود گھر میں دیکھ لیا ہو، یہ اہلِ عرفان کی توحید کی مثال ہے کیونکہ وہ خود دیکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ توحید اعلیٰ درجے کی ہے، لیکن اس مقام پر عارف خالق اور مخلوق دونوں کو دیکھتا ہے۔ اور وہ جانتا ہے کہ جب مخلوق خالق سے ظاہر ہوتی ہے تو اس وحدت میں کثرت شامل ہو جاتی ہے، اور جب تک عارف دو کا مشاہدہ کرتا ہے، وہ تقسیم میں رہتا ہے اور وحدت حاصل نہیں کرتا، اور یہ توحید کی کامل حالت نہیں۔
درجہ نمبر 4
اس درجہ پر انسان کچھ اور نہ دیکھے سوائے ایک کے، اور سب کو ایک ہی دیکھے اور ان کو ایک ہی سمجھے، اور اس مشاہدہ میں اختلاف رکاوٹ نہیں بنتے۔
کسی نے پوچھا: جب تم جنگل میں روتے ہو تو کیا کرتے ہو؟
اس نے جواب دیا: میں کل کے لیے اپنے قدم درست کر رہا ہوں۔
حضرت حسین بن منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
“تو نے پوری عمر باطن میں گزار دی، اب توحید کے مقام پر کب پہنچے گا؟”
براہِ کرم “بحرِ سیفیہ” صفحہ 38-39 کا اطمینان کے ساتھ مطالعہ فرمائیں۔