استقبال ماہِ رمضان المبارک
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے پچھلوں پر فرض ہوئے تھے تاکہ تمہیں پر ہیز گاری ملے۔
گنتی کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو ۔ رمضان المبارک کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں ، تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے، اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں، اللہ جل شانہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو، اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور تاکہ تم حق گزار ہو۔
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے اللہ رب العزت جل جلالہ نے امت مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء پر کرم فرمایا کہ اس کی بخشش اور نجات کے لئے ماہ رمضان عطا فرمایا۔ یہ ماہ مبارک ایمان اور نیک اعمال کی بہار کا مہینہ ہے۔
اسلامی سال کے بارہ مہینوں میں رمضان المبارک نو واں قمری مہینہ ہے چاند کے حساب سے ، ماہ رمضان المبارک کا جو مقام و مرتبہ ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔ پیارے کریم آقا نے اس کی خیر و برکت و سعادت کا ذکر فرماتے ہوئے اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے شعبان المعظم کے آخر میں اپنے صحابہ کرام کو مبارک باد دیتے ہوئے اس کی فضیلت ان الفاظ میں بیان فرمائی کہ اے لوگو! تمہارے پاس ایسا بزرگ مہینہ رمضان شریف تشریف لارہا ہے۔
٭عشرہ رحمت
٭ عشرہ مغفرت
٭ عشرہ نجات
جس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا و آخری عشرہ دوزخ سے آزادی حاصل کرنے کا ہے ( مشکوۃ شریف)
گویا اس طرح کہ رحمت ، بخشش اور عذاب دوزخ سے آزادی کی ضمانت دینے والا ماہ مبارک تشریف لا رہا ہے۔
اس حدیث مبارکہ کا مفہوم کچھ اسطرح سے ہے کہ پہلے رمضان المبارک کےدس دنوں میں اللہ کریم روزے داروں ، عبادت گزاروں پر اپنی خصوصی رحمتوں کا نزول فرماتا ہے۔ پھر دوسرے عشرہ میں ان کے گناہوں کی بخشش فرماتا ہے اورتیسرے عشرہ میں ایسے خوش نصیب روزے دار عبادت گزار افراد کو دوزخ سے آزادی کاپروانہ ( سرٹیفیکیٹ ) عطا کرتا ہے۔ ایک انسان کو اس کے علاوہ اور کیا چاہئیے کہ رمضان المبارک کی برکتوں ، رحمتوں اور سعادتوں سے اس کے دامن کو بھر دیا جائے اور خدائے تعالیٰ کی اس کو رحمت نصیب ہو جائے اور گناہوں سے داغدار اس انسان کو اللہ کریم اپنے بارانِ رحمت سے ایسا نوازتا ہے کہ اس گناہگار انسان کے گناہ مغفرت کے پانی سے دھل جاتے ہیں اور سبحان اللہ ۔۔۔ اللہ کریم کے کرم کے کیا کہنے کہ وہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی اور خلاصی کے پروانے عطا فرما دیتا ہے مگر یہ تمام تر سعادتیں یہ عنایتیں اور یہ انعامات اسی وقت ممکن ہو سکتے ہیں جب ہم خلوص دل سے سچے جذبے اور پورے انہماک و توجہ سے اس با برکت انوار تجلیات سے معمور ، ماہ مقدس رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے بھر پور طریقے سے فیض یاب ہونے کی کوشش کریں گے اے میرے مسلمان بھائی اور بہنوں ہو سکتا ہے کہ یہ ہماری فانی زندگی کا آخری رمضان المبارک ہو۔ آؤ اللہ کریم کی خصوصی رحمتوں کی بہاروں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کی طرف متوجہ ہو جائیں کیونکہ یہ خبر نہیں ، پتہ نہیں آئندہ یہ ہماری فانی زندگی ہمارے ساتھ وفا کرے یا نہ کرے یہ ماہ مبارک جب تک چاند اور سورج کی گردش جاری ہے یہ عظیم الشان رمضان المبارک کا مہینہ قیامت تک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ جلوہ فگن ہوتا رہے گا اور رحمتوں کی موسلا دھار بارش برساتا رہے گا گویا رمضان المبارک روحانی بارشوں کا مہینہ ہے اب آپ خوداندازہ لگائیں کہ بارش بادشاہ کے محل پر بھی برستی ہے اور فقیر کی جھونپڑی پر بھی ۔ زرخیز زمین پر بھی برستی ہے اور سخت زمین کو بھی سیراب کرتی ہے نرم زمین کو بھی سیراب کرتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ ہر زمین اپنی اپنی استعداد کے مطابق فائدہ حاصل کرتی ہے اگر چہ بارش یکساں طور پر برسی ہے مگر بارش برسنے کے بعد کہیں تو گلاب کے پھول کھلے ہیں اور کہیں کانٹے دار جھاڑیاں ، اپنے نوکیلے کانٹوں کے ساتھ منہ کھول لیتی ہیں کچھ اسی طرح کی کیفیت رمضان المبارک کی روحانی بارش کی ہے جو انسان اپنے دل کی کھیتی کو ندامت کے آنسوؤں سے سیراب کرے گا اور محبت مصطفی اللہ اور محبت الہی سے زرخیز بنائے گا اس انسان میں نیکی اور اطاعت و فرمانبرداری کے خوبصورت اور پاکیزہ پھول کھلیں گے اور جس دل کی کھیتی تکبر ، غرور اور گھمنڈ کے کھولتے ہوئے پانی سے سیراب کی گئی اور نا فرمانی خدا تعالیٰ اور گستاخی رسول سے بنجر بنادی گئی اس میں گناہ اور بدکاری ذلت و رسوائی کے خاردار جھاڑیاں کانٹے اگائیں گی۔
پس اے میرے مسلمان بہن بھائیوں
اس رمضان المبارک کی موسلا دھار بارش کے حوالے اپنے دل کی کھیتی کر دو۔ تا کہ یہ کھیتی سرسبز و شاداب ہو جائے بارش برستی ہے تو فضاؤں کو پاکیزہ اور خوشبودار کر دیتی ہے اور پہاڑوں اور چٹانوں کو دھو دھو کر صاف کر دیتی ہے کیونکہ رمضان المبارک کی بارش انسان کی روح کو پاکیزہ اور دل کو اجلا کر دے گی کاش ۔۔۔ کاش ۔۔۔ ہم سب کو اس ماہ رمضان المبارک کی لطافتوں کی واضح خبر ہوتی پھر تو کھبی بھی انسان اپنےآپ کو اس سے چھپا چھپا کر نہ بچاتا ۔ پیارے آقا ﷺنے اگر لوگوں کو ماہ رمضان المبارک کی عظمتوں کا پتہ چل جاتا تو وہ خواہش کرتے کہ کاش سارا سال ہی ماہ رمضان المبارک بن جاتا بڑے خوش نصیب ، بڑے ہی خوش قسمت وہ مسلمان ہیں جو جہنم کی آگ سے آزادی حاصل کریں گے بڑے ہی خوش نصیب وہ انسان ہوں گے جو بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہیں قابل رشک ہیں وہ آنکھیں جو یا دالہی میں آنسو بہاتی ہیں قابل تحسین ہیں وہ پیشانیاں جو اللہ کریم کے حضور سجدہ ریز رہتی ہیں قابل محبت ہیں وہ پاکیزہ دل جو ذکر الہی کے مزے لوٹتے ہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ہم ان روزہ داروں ، شب داروں ، عبادت گزاروں کو جو دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو قیام کرتے ہیں یعنی نماز تراویح ادا کرتے ہیں اے میرے مسلمان بہن بھائیو جب موسم بہار آتا ہے اور باد بہار چلتی ہے تو گلشن تو گلشن ، گلستان تو گلستان باغیچہ تو باغیچہ درو دیوار پر بھی سبزہ اُگ آتا ہے ویران بیاباں اور جنگل بھی رشک صد چمن بن جاتے ہیں سنگلاخ پہاڑی چٹانیں ہوں یا دریاؤں کے کنارے ذرخیز میدان ہوں یا بنجر بے آباد زمینیں ، بہار آئے تو ہر طرف اپنی اپنی نوع (قسم) کے پھول شگوفے کھل اٹھتے ہیں یہ دل فریب
رعنائیاں تو ظاہر فصلیں بہار کی ہیں لیکن کبھی انسانی وجود بھی اپنی بہاروں سے آشنا ہوتا ہے جس سے اس کے قلب و روح و دماغ بھی مہک اٹھتے ہیں انسان کے جسم کالوں لوں معطر ہو جاتا ہے یہ مسرتوں اور خوشیوں کی بہاریں ہوتی ہیں اللہ کریم کے فضل و کرم بہاریں ہوتی ہیں تسکین وطمانیت کی بہاریں ہوتی ہیں اُمیدوں ، ارمانوں ، خواہشوں اور تمناؤں کے پورا ہونے کی بہاریں ہوتی ہیں ان ساری بہاروں کی سردار ۔۔۔ ان ساری بہاروں کی سر براہ ان ساری بہاروں کی چیف ۔۔۔ بہار وہ فصل بہاری ہے جب ہر طرف نیک اعمال کی ہوائیں چلتی ہوں جب ہر سمت سے نیکیوں کی خوشبوئیں آتی ہوں ، جب اطاعت الہی و اطاعت رسول ﷺ کے گلاب مہکتے ہیں تو غم خواری و غمگساری کی پھوار برستی ہے ہمدردی و ایثار اور دل نوازی کے گل چین کھلتے ہیں اور نور و سرور کی آبشاریں گیت گاتی ہیں غفلت و جہالت اور معیت کی گرد ( دھول ) چھٹتی ہے حسد و نفرت کے کانٹے ختم ہو جاتے ہیں تکبر اور غرور کے پتے جھڑ جاتے ہیں سخاوت کے جذبے جواں ہو جاتے ہیں دوسروں کے لئے کچھ کرنے کا حصول بڑھتا ہے ۔ ہاں ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ جب بندہ مومن نیکی کے کام میں حصہ لینے کے لئے بہانے ڈھونڈتا ہے ہاں ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ یہی وہ بہار رمضان المبارک ہے۔ یہی وہ نیکیوں کا موسم بہار ہے اسی ماہ مبارک میں رحمتوں اور سعادتوں کے جلووں میں مغفرت و نجات کی مہکار ہے یہی ماہ رمضان المبارک امن انگیز ، جاں نواز ، خیر افزاء
”رمضان المبارک کی بہار ہے ۔ اور یہی نیکیوں کا موسم بہار ہے یہ ایسا عظیم الشان مہینہ ہے کہ جب اس کا چاند آسمان پر طلوع ہوتا ہے تو پوری کائنات رحمت اور نور و نکہت کی کملی اوڑھ لیتی ہے آسمان سے دم بدم اتر تے فرشتوں کے نور سے فضائیں منور ہو جاتیں ہیں اور انسان کے کھلے دشمن شیطان اور اس کےچیلوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ برائی کی طاقت دم توڑ نے لگتی ہے اور نیکی بڑی تیزی سے پروان چڑھنے لگی ہے خیر و بھلائی سنونکھار کے ساتھ اپنے جو بن پر ہوتی ہے گناہوں کے تاریک بادل چھٹنے لگتے ہیں فلاح و اصلاح خیر اور بھلائی کا یہ پاکیزہ ماحول ہی ہے جو انسانی نفس کی ہر کمی کو دور کرتا چلا جاتا ہے نفس کی بے لگام شہوانی قو تیں ختم ہوتی ہیں تو روح کی روحانی قوتیں عروج پاتی ہیں یہ ارتقاء اس قدر زیادہ ہو جاتا ہے کہ انسان معرفت الہی کی لازوال دولت اپنے من میں سمیٹ کر بام عروج تک جا پہنچتا ہے اور پھر بندہ مومن کی ہر نیکی کا حسن و جمال نکھرتا چلا جاتا ہے تب رحمت خداوندی اس کا استقبال کرتی ہے ۔اے بھلائی کا ارادہ رکھنے والو آگے بڑھو۔۔۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور ﷺ نے شعبان کے آخر میں وعظ فرمایاﷺ: اے لوگو! تمہارے پاس عظمت والا برکت والا مہینہ آیا وہ مہینہ جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے اور اس کی رات میں قیام کرنا نماز پڑھنا”تطوع”، یعنی نفل قرار دیا ہے جو اس میں نیکی کا کوئی کام یعنی عبادت کرے تو ایسا ہے جیسے اور دنوں ستر فرض ادا کی یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ غم خواری کا مہینہ ہے اور اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے جو اس میں روزہ دار کو افطار کرائے اس کے گناہوں کے لئے مغفرت ہے اور اس کی گردن دوزخ سے آزاد کر دی جائے گی اور اس میں افطار کرانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا روزہ رکھنےوالے کو ملے گا بغیر اس کے کہ اس ثواب میں کچھ کمی واقع ہو۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں ہر شخص وہ چیز نہیں پاتا جس سے روزہ افطار کرائے حضور ﷺ نے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرائے گا اور جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے سیراب کرے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے گا یہ وہ مہینہ ہے کہ اس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اس کا درمیانی حصہ مغفرت ہے اور اس کا آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے ، اور جو اپنے غلام پر اس مہینہ میں تخفیف کرے یعنی کام میں کمی کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کوبخش دے گا اور جہنم سے آزاد فرمائے گابعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ماہ رمضان المبارک میں چار کام کثرت سے کروان میں سے دو کام ایسے ہیں کہ ان کے کرنے سے تم اپنے خالق و مالک کو راضی کرو گے اور دو کام اس طرح کے ہیں جن کے کرنے سے تم بے نیاز ہو نہیں سکتے وہ دو کام جن کے کرنے سے اللہ رب العزت کی رضا حاصل ہوگی وہ دو کام یہ ہیں افضل ذکر (لا الہ الا اللہ ) کا ورد جاری رکھنا اور دوسرا کام اللہ رب العزت سے مغفرت طلب کرتے رہنا اور دوسرے دو کام وہ یہ ہیں جن سے تم بے نیاز نہیں رہ سکتے وہ دو کام یہ ہیں جنت کا سوال کرتے رہنا دوزخ سے پناہ مانگتے رہنا۔
رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام کا اہم فریضہ ہے
یہ عبادت اپنی نوعیت اور فضیلت کے اعتبار سے امتیازی اہمیت کی حامل ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں روزہ کا اصل مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَاكُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون”
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ں واقعہ بھی یہی ہے کہ روزہ کے ذریعہ خواہشات نفسانی کا قلع قمع ہو جاتا ہے ، روزہ گناہوں منکرات سے بچنے کے لئے ڈھال اور بچاؤ کا کام دیتا ہے روزہ سے روحانیت کی آبیاری ہوتی ہے اور دل کی صفائی اور تقرب ایزدی کے لئے بھی روزہ نہایت اہم وسیلہ ہے اس بناء پر فرزندان اسلام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف نام کا روزہ نہ رکھیں ۔ بلکہ روزہ کی جو روح ہے اس کی حقیقت کو پیش نظر رکھیں اور روزہ کے تقاضوں پر پوری طرح عمل بجالائیں حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے روزہ کے اسرار و رموز بیان فرماتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ روزہ کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں۔
٭عمودی روزه
٭خصوصی روزه
٭اعلیٰ درجہ کا روزه
عمودی روزہ کا مطلب واضح ہے کہ از روئے فقہ جن اعمال کے ارتکاب سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ان سے بچا جائے ، یہ عام لوگوں کا روزہ ہوتا ہے خصوصی روزہ کا مطلب ہے کہ مفسدات روزہ سے بچنے کے ساتھ ساتھ اعضاء جو روح کوبھی ہر طرح کے گناہوں سے محفوظ رکھا جائے ، یہ خاص کا روزہ ہوتا ہے اور نہایت خصوصی روزہ کا مفہوم یہ ہے کہ ظاہری و باطنی مفسدات سے بچنے کے علاوہ دل کو غیر اللہ کے ساتھ مشغول ہونے تک سے محفوظ رکھا جائے ، یہ درجہ حضرات انبیاء، صدیقین اور مقربین بارگاہ کو حاصل ہوتا ہے۔
(احیاء العلوم ۱،۱۳۳)
ہمیں بھی ہر دم یہ سعی کرنی چاہئیے کہ اعلیٰ درجہ کے روزہ داروں کی صف میں شامل ہو جائیں ، تاکہ صحیح معنوں میں روزہ کے فوائد و منافع سے بہرہ ور ہوسکیں ، اس لئے خاص کر روزہ کی حالت میں بدنظری ، جھوٹ، غیبت ، غصہ، گالم گلوچ اور گانا وغیرہ سننے سے اپنے آپ بچانا چاہئیے ۔
ایک روایت میں ہے کہ پیارے آقا ﷺ کے زمانہ میں دو عورتوں نے روزہ رکھا، تو دن کے آخر میں ان کو سخت پیاس اور بھوک لگنے لگی اور اتنی حالت خراب ہوئی کہ معاملہ برداشت سے باہر ہو گیا اور جان نکلنے کا اندیشہ لاحق ہو گیا ، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے افطار کی اجازت طلب کرنے کے لئے آدمی بھیجا تو حضور ﷺ نے ان کے پاس ایک پیالہ بھیجا کہ وہ دونوں اس میں تے کریں پس ایک نے قے کی تو پیالہ میں آدھا خون اور آدھا تازہ گوشت نکلا ، اسی طرح دوسری نے قے کی تو حتی کہ پیالہ بھر گیا لوگوں کو تعجب ہوا ، اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں عورتوں نے حلال چیز سے روزہ رکھا اور حرام پر افطار کیا ، یہ دونوں بیٹھی لوگوں کی غیبت کرتی رہیں ۔ یہ خون اور گوشت اسی غیبت کا مظہر ہیں ۔ (احیاء العلوم )
ذرا توجہ فرمائیں، کیا آج ہمارا روزہ واقعی ان خرابیوں سے پاک ہے؟ واقعی یہ ہے کہ روزہ رکھ کر بظاہر ہمارے معمولات اور مشاغل اور عادات میں کوئی فرق نہیں آتا سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم ان کوتا ہیوں کے باوجود اپنے کو رحمت خداوندی کا مستحق قرار دے سکتے ہیں؟ کاش ! رمضان کی برکت سے پوری طرح مستفیض ہو سکیں ، اور تقویٰ کی سعادت حاصل کر سکیں اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و مددگار ہو۔ آمین
روزہ
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور ﷺ نے شعبان کے آخر میں وعظ فرمایا ۔ اے لوگو! تمہارے پاس عظمت والا برکت والا مہینہ آیا وہ مہینہ جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے اور اس کی رات میں قیام کرنا نماز پڑھنا “تطوع”، یعنی نفل قرار دیا ہے جو اس میں نیکی کا کوئی کام یعنی عبادت کرے تو ایسا ہے جیسے اور دنوں ستر فرض ادا کئے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا توپھل جنت ہے اور یہ غم خواری کا مہینہ ہے اور اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے جو اس میں روزہ دار کو افطار کرائے اس کے گناہوں کے لئے مغفرت ہے اور اس کی گردن دوزخ سے آزاد کر دی جائے گی اور اس میں افطار کرانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا روزہ رکھنےوالے کو ملے گا بغیر اس کے کہ اس ثواب میں کچھ کمی واقع ہو ۔ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اللہ ہم میں ہر شخص وہ چیز نہیں پاتا جس سے روزہ افطار کرائے حضور ﷺ نے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرائے گا اور جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے سیراب کرے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے گا یہ وہ مہینہ ہے کہ اس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اس کا درمیانی حصہ مغفرت ہے اور اس کا آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے، اور جو اپنے غلام پر اس مہینہ میں “تخفیف” کرے یعنی کام میں کمی کر دے تو اللہ تعالی اس بخش دے گا اور جہنم سے آزاد فر مائے گابعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ماہ رمضان المبارک میں چار کام کثرت سے کروں ان میں سے دو کام ایسے ہیں کہ ان کے کرنے سے تم اپنے خالق و مالک کو راضی کرو گے اور دو کام اس طرح کے ہیں جن کے کرنے سے تم بے نیاز ہو نہیں سکتے وہ دو کام جن کے کرنے سے اللہ رب العزت کی رضا حاصل ہوگی وہ دو کام یہ ہیں افضل ذکر (لا الہ الا اللہ ) کا ورد جاری رکھنا اور دوسرا کام اللہ رب العزت سے مغفرت طلب کرتے رہنا اور دوسرے دو کام وہ یہ ہیں جسے تم بے نیاز نہیں رہ سکتے وہ دو کام یہ ہیں کہ جنت کا سول کرتے رہنا دوزخ سے پناہ مانگتے رہنا۔
رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام کا اہم فریضہ ہے، یہ عبادت اپنی نوعیت اور فضیلت کے اعتبار سے امتیازی اہمیت کی حامل ہے، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں روزہ کا اصل مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا
كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہیں تمہیں پر ہیز گاری ملئے۔
واقعہ بھی یہی ہے کہ روزہ کے ذریعہ خواہشات نفسانی کا قلع قمع ہو جاتا ہے ، روزہ گناہوں منکرات سے بچنے کے لئے ڈھال اور بچاؤ کا کام دیتا ہے روزہ سے روحانیت کی آبیاری ہوتی ہے اور دل کی صفائی اور تقرب ایزدی کے لئے بھی روزہ نہایت اہم وسیلہ ہے اس بناء پر فرزندانِ اسلام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف نام کا روزہ نہ رکھیں ۔ بلکہ روزہ کی جو روح ہے اس کی حقیقت کو پیش نظر رکھیں اور روزہ کے تقاضوں پر پوری طرح عمل بجالائیں حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے روزہ کے اسرار و رموز بیان فرماتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ روزہ کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں۔
٭ عمودی روزه
٭ خصوصی روزه
٭ نہایت خصوصی روزه
عمودی روزہ کا مطلب واضح ہے کہ از روئے فقہ جن اعمال کے ارتکاب سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ان سے بچا جائے ، یہ عام لوگوں کا روزہ ہوتا ہے خصوصی روزہ کا مطلب ہے کہ مفسدات روزہ سے بچنے کے ساتھ ساتھ اعضاء جو روح کوبھی ہر طرح کے گناہوں سے محفوظ رکھا جائے ، یہ خاص کا روزہ ہوتا ہے اور نہایت خصوصی روزہ کا مفہوم یہ ہے کہ ظاہری و باطنی مفسدات سے بچنے کے علاوہ دل کو غیر اللہ کے ساتھ مشغول ہونے تک سے محفوظ رکھا جائے ، یہ درجہ حضرات انبیاء، صدیقین اور مقربین بارگاہ کو حاصل ہوتا ہے۔
(احیاء العلوم -۱،۱۳۳)
ہمیں بھی ہر دم یہ سعی کرنی چاہئیے کہ اعلیٰ درجہ کے روزہ داروں کی صف میں شامل ہو جائیں ، تاکہ صحیح معنوں میں روزہ کے فوائد و منافع سے بہرہ ور ہو سکیں ، اس لئے خاص کر روزہ کی حالت میں بدنظری ، جھوٹ ، غیبت ، غصہ، گالم گلوچ اور گانا وغیرہ سننے سے اپنے آپ بچانا چاہئیے ۔
ایک روایت میں ہے کہ پیارے آقا ﷺ کے زمانہ میں دو عورتوں نے روزہ رکھا، تو دن کے آخر میں ان کو سخت پیاس اور بھوک لگنے لگی اور اتنی حالت خراب ہوئی کہ معاملہ برداشت سے باہر ہو گیا اور جان نکلنے کا اندیشہ لاحق ہو گیا ، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے افطار کی اجازت طلب کرنے کے لئے آدمی بھیجا تو حضور ﷺ نے ان کے پاس ایک پیالہ بھیجا کہ وہ دونوں اس میں قے کریں پس ایک نے قے کی تو پیالہ میں آدھا خون اور آدھا تازہ گوشت نکلا ، اسی طرح دوسری ﷺ نے قے کی تو حتی کہ پیالہ بھر گیا لوگوں کو تعجب ہوا ، اس پر آپ
نے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں عورتوں نے حلال چیز سے روزہ رکھا اور حرام پر افطار کیا ، یہ دونوں بیٹھی لوگوں کی غیبت کرتی رہیں ۔ یہ خون اور گوشت اسی غیبت کا مظہر ہیں ۔ (احیاء العلوم )
ذرا توجہ فرمائیں ، کیا آج ہمارا روزہ واقعی ان خرابیوں سے پاک ہے؟ واقعی یہ ہے کہ روزہ رکھ کر بظاہر ہمارے معمولات اور مشاغل اور عادات میں کوئی فرق نہیں آتا، سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم ان کو تو ہیوں کے باوجود اپنےآپ کو رحمت خداوندی کا مستحق قرار دے سکتے ہیں؟ کاش ! رمضان کی برکت سے پوری طرح مستفیض ہو سکیں ، اور تقوی کی سعادت حاصل کر سکیں اللہ تعالی ہمارا حامی ومددگار ہو۔ آمین
رمضان المبارک کے آداب
روزے کا اجر و ثواب اور رمضان المبارک کے فوائد نگاہ میں رکھ کر پورے ذوق و شوق سے روزے رکھنے کا اہتمام کریں ۔ کیونکہ یہ ایسی عبادت ہے کہ جس کا نعم البدل کوئی دوسری عبادت نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ ہر امر پر فرض کیا گیا ہے ارشاد ربانی ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا
كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہیں تمہیں پر ہیز گاری ملئے۔

نبی کریم ﷺ نے روزے کے مقصد کو یوں بیان فرمایا ہے کہ جس نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکےپیاسے رہنے سے کوئی غرض نہیں ہے۔
٭رمضان المبارک کے روزے پورے اہتمام سے رکھئے ۔ بغیر کسی سخت بیماری یا شرعی عذر کے روزہ نہ چھوڑیئے۔
٭فرمان مصطفی یہ ہے کہ جس شخص نے کسی بیماری یا شرعی عذر کے بغیر رمضان المبارک کا ایک روزہ چھوڑا تو عمر بھر کے روزے رکھنے سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔
٭روزے میں زبان کی حفاظت کیجئے ۔ جھوٹ ، چغلی ، لغو گفتگو ، غیبت ، بد کلامی ، گالی گلوچ وغیرہ یہ تمام اسی میں داخل ہیں لہذا ان سے بچنا ضروری ہے
٭نگاہ کی حفاظت کیجئے کہیں نا جائز جگہ یا غیر محرم پر نہ پڑے۔
٭کان کی حفاظت کیجئے ۔ ہر وہ مکروہ اور ناپسندیدہ بات ، جس کا زبان سے نکلنا جائز نہیں اس کا سننا اور اس کی طرف کان لگانا جائز نہیں ہے۔
٭روزے کی تکالیف کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان سمجھ کر ہنسی خوشی برداشت کیجئے ۔ بھوک اور پیاس کی شدت یا کمزوری کی شکایت کر کے روزے کی ناقدری نہ کریں۔
٭حلال روزی کا اہتمام کیجئے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے حرام کی کمائی سے جو بدن پلا ہو وہ جہنم کے لائق ہے۔
٭سحری لازمی کھائیں ۔ اگر چہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو پیارے آقاﷺکا ارشاد ہے کہ سحری ضرور کھا لیا کرو کہ سحری میں برکت ہے اور ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے سحری کھانے والوں پر سلام بھیجتے ہیں۔
٭سورج غروب ہو جانے کے بعد افطاری میں دیر نہ کریں ۔ اس لئے کہ روزے گا اصل مقصد فرمانبرداری کا جذبہ پیدا کرنا ہے نہ کہ بھوکا پیاسا رہنا۔ سید عالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے مسلمان اچھی حالت میں رہیں گے کہ اگر وہ ( وقت ہونے پر ) افطاری کرنے میں جلدی کریں گے۔
٭افطاری کے وقت پر یہ دعا پڑھیں : اللَّهُمَّ اِنِّیْ لَكَ صُمْتُ، وَبِکَ اٰمَنْتُْوَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ
روزے داروں کی بخشش
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے ( غفر له ما تقدم من دنبہ ) ترجمہ : اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے گئے اور دوسری روایت میں ہے کہ ہے کہ اس شخص کے اگلے گناہ بھی بخش دیئے جاتے ہیں صحیح بخاری کتاب الصوم، باب صوم رمضان احسابا من الایمان، جلد نمبر ۱، ص ۲۲، رقم الحدیث ۳۸، صحیح مسلم : کتاب صلوة المسافرين وقصرها، باب الترغيب فی جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں (و سلسلت الشياطين) ترجمہ: اور شیطان جکڑ دیئے جاتے ہیں۔
صحیح بخاری ، کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنوده ، جلد ۳، ص۱۱۹۴، رقم الحدیث ۳ ، ۳۱ صحیح مسلم شریف باب فصل شهر رمضان جلد ۲، ص ۷۵۷
رمضان کی پہلی فضیلت
حضرات گرامی ۔۔۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا نام ذکر نہیں فرمایا۔ صرف اس ماہ مقدس کو شرف حاصل ہوا کہ اللہ نے قرآن میں اس کا نام لیا اور فرمایا۔
” شہر رمضان الذي انزل فيه القرآن”
“رمضان وہ مہینہ ہے جس میں اتارا گیا قرآن۔”
رمضان روزے کا مہینہ بھی ہے اور قرآن کا مہینہ بھی ۔ رمضان “رَمُض”سےمشتق ہےرمض کے معنی جلانا،رمضان کےمعنی جلا دینے والا ۔ اس مہینہ کورمضان اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ گناہگاروں کے گناہوں کو جلا دیتا ہے اور انہیں متقی بنا دیتا ہے ۔

حضرات محترم ! رمضان المبارک وہ مقدس ماہ ہے جس کے دامن میں اسلام کی کئی یادگاریں موجود ہیں۔
٭تین رمضان المبارک کو جگر گوشته رسول ، سیدہ عالمین ، خاتون جنت سیده فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا یوم وصال ہے۔
٭دس رمضان المبارک کو خاتون اول ، رفیقه نبوت ، ام المومنین سیده خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کا یوم وصال بھی ہے اور جشن فتح مکہ بھی۔
٭انیس سے لیکر اکیس رمضان المبارک تکیہ مولائے کائنات، شیر خدا، حیدر کرار ، سید نا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایام شہادت ہیں ۔
٭اس کے آخری عشرہ میں اعتکاف بھی ہے اور لیلۃ القدر بھی۔ نزول قرآن بھی اور رحمت رحمن بھی ( سبحان اللہ )
حضرات محترم!۔۔۔۔ یہ سارا مہینہ رحمتوں اور برکتوں کا مجموعہ ہے یوں سمجھو
یوں آگیا کہ (season)رحمتوں، برکتوں اور بخششوں کا سیزن
محنت تھوڑی کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نفع زیادہ پاؤ
کام تھوڑا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اجرت زیادہ لو
ایک نیکی کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستر گنا تو اب لو
ایک نفل پڑھو ۔۔۔۔۔ ایک فرض کے برابر ثواب لو
ایک فرض پڑھو ۔۔۔۔۔۔۔ ستر فرضوں کا ثواب لو
حدیث قدسی میں اللہ پاک فرماتا ہے۔
“فَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفِ” (سنن دارمی و مسنداحمد)
اگر میں چاہوں گا تو تمہارے اخلاص کے مطابق تمہاری نیکیاں ستر گنا سے سات سو گنا کر دونگا اور اگر میرا دریائے رحمت موج میں آگیا تو سات سوکو دو گنا کر دونگا اور اگر تمہارا اخلاص مجھے پسند آ گیا تو تمہیں بغیر حساب کے اجر دے دونگا۔۔ اور اگر کسی بندے کا جذبہ دل فزوں تر ہو گیا تو میں بے حجاب اس کو اپنا دیدار بھی کراؤں گا۔ یہ ہیں ! ماہ رمضان کے وعدے، ( سبحان اللہ )
بندہ جب کوئی عمل کرتا ہے تو فرشتوں کو اس کے اجر کا پہلے ہی علم ہوتا ہے جیسا عمل بندہ کرتا ہے اس کے مطابق اس کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے ۔ رجسٹر کراما کا تبین کے پاس موجود ہیں وہ لکھتے جاتے ہیں بندہ نماز پڑھے فرشتے لکھ لیتے ہیں ۔ حج کرے ، زکوٰۃ دے کوئی نیکی کرے ، فرشتے اس کی ہر نیکی لکھ لیتے ہیں اسی طرح اگر کوئی بدی کرے (معاذ اللہ ) تو بدی بھی لکھ لیتے ہیں۔
لیکن جب کوئی بندہ روزہ رکھے اور روزہ مکمل کرے تو جب فرشتے اس کے اجر کو لکھنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اللہ فرماتا ہے فرشتو! کیا میرے بندوں کے لئے ثواب لکھنے لگے ہو؟
فرشتے عرض کرتے ہیں ہاں مولا ۔۔۔
خدا کہتا ہے اے فرشتو اٹھہر جاؤ ! باقی ساری عبادات کے اجر تم نے لکھے، مگر روزہکا اجر خود میں دوں گا۔
فرشتے پوچھتے ہیں یا اللہ! اس کی حکمت؟ اللہ فرماتا ہے
یہ روزہ دار میرے صابر بندے ہیں میری رضا کے لئے انہوں نے کھانا چھوڑا ، ۔۔۔ پینا چھوڑا۔۔۔ خواہشات نفس کو ترک کیا ۔۔۔ گناہ چھوڑے ۔۔۔ انہوں نے کان کا روزہ رکھا ۔ ۔ ۔ زبان کا روزہ رکھا ۔۔۔ آنکھ کا روزہ رکھا ۔۔۔ اعضاء کا روزہ رکھا۔۔۔ برائی کی طرف نہ گئے نیکیوں کی طرف آئے ۔۔۔۔ سچ بولتے رہے۔ ۔ ۔ قرآن پڑھتے رہے۔۔۔۔ ذکر کرتے رہے۔۔۔۔ صبر کرتے رہے
اب میں انہیں روزے کا اجر حساب کر کے نہیں دونگا۔۔۔ بلکہ
“إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ”
(سورہ زمر ۱۰)
صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دونگا
یا اللہ پھر بھی کتنا اجر ؟
اللہ رب العزت حدیث قدسی میں فرماتا ہے
“فَاِنَّہ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ” ( صحیح بخاری، کتاب الصوم رقم ۱۸۰۵)”
اس نے میرے لئے روزہ رکھا اور روزہ رکھ کر میری صفت اپنائی ۔ میں خدا ہوں۔۔۔ نہ کھاتا ہوں ۔۔۔ نہ پیتا ہوں ۔ ۔ ۔ یہ میری صفت ہے۔
نمازی چاہے جتنی نمازیں پڑھے وہی نمازی کہلائے گا، میں نماز سے پاک ہوں حاجی چاہے جتنے حج کرے ، وہی حاجی کہلائے گا ، میں حج کرنے سے پاک ہوں ۔ زکوۃ دینے والا چاہے جتنی زکوۃ دے ، وہ ہی زکوۃ دینے والا اور کی کہلائے گا ، میں زکوۃ دینے سے پاک ہوں مگر روزے دار کی ایک صفت ایسی ہے کہ وہ صفت اس کی نہیں ۔۔۔ بلکہ میری ہے کیونکہ صبح سے شام تک کھاتا وہ بھی نہیں۔۔۔۔۔ کھاتا میں بھی نہیں پیتا وہ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ پیتا میں بھی نہیں
نہ کھانا اور نہ پینا یہ میری صفت ہے میں خدا ہوں ، کھانے پینے سے پاک ہوں بندہ ماہ رمضان میں صبح سے شام تک میری صت اپناتا ہے بندہ بھی نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے۔
فانہ لی ۔۔۔۔ یہ روزہ میرے لئے ہے اور میری صفت کا مظہر ہے۔ فرشتو! اس کی جزا تم تب لکھو جب تمہارے حساب میں ہو ۔ انا اجزی بہ۔۔۔ روزے کی جزا میں ہی جانتا ہوں ۔۔ اور میں ہی دوں گا۔
یا اللہ تو روزے دار کو کیا جزا دے گا؟ اللہ فرماتا ہے جو بھی دوں ۔۔ تمہیں کیا ؟
روزے کا اجر
حضرات ! جانتے ہو کہ روزے کی کیا جزا ہے؟۔۔۔ اللہ کے عاشق ، مردان فقیر ، اولیاء کرام سمجھ گئے اور اس راز تک پہنچ گئے ، انہوں نے کہا اس حدیث قدسی کو اگر دوسرے طریقے سے پڑھا جائے تو مسئلہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ روزہ دار کی جزا کیا ہے؟ صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو اگر یوں پڑھا جائے فانہ لی وانا اجزی بہ تو معنی یہ ہوگا کہ اللہ فرماتا ہے روزہ میری صفت ہے اوراس کی جزا خود” میں” ہوں اس مسئلہ کی مزید وضاحت یوں ہے کہ
نمازی نماز پڑھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جنت ملتی ہے
حاجی حج کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جنت ملتی ہے
قاری قرآن پڑھے۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جنت ملتی ہے
قاضی انصاف کرے۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جنت ملتی ہے
غازی جہاد کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جنت ملتی ہے
سخی سخاوت کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جنت ملتی ہے

مگر جب روزہ دار روزہ رکھے تو اسے “جنت والا” ملتاہے۔
روزہ رکھنے والو تمہیں مبارک ہو ۔ کتنی مبارک دوں کہ روزے کا صلہ کیا ہے۔روزے کا بدلہ کیا ہے؟ سن لو ۔ ۔ ۔ یقین کر لو ۔۔۔ بے خود ہو جاؤ ۔۔۔ مست ہوجاؤ۔۔۔ روزے کا صلہ خود خدا ہے، روزہ دار کو خدا ملتا ہے۔
روزہ دار کے لئے دو عیدیں
دوسری حدیث سنئے اور ایمان تازہ کیجئے رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
للصائم فرحتان”۔۔۔۔۔۔ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ، یعنی دوعیدیں ہیں۔
( متفق علیہ ) “فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ “
ایک عید افطار جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری عید دیدار جب وہ اپنےرب سے ملے گا۔حضرات! میرا اللہ فرماتا ہے کہ روزہ دار کی دو عیدیں ہیں ۔۔۔ اس تصور میں ڈوب جائیے اور مست ہو جائیے ، بے خود ہو جائیے ۔للصائم فرحتان ۔۔۔۔ روزے دار کے لئے دو عیدیں ہیں۔
عید افطار
ایک عید عید الفطر فطر کے معنی افطار ۔۔۔۔۔ ایک ماہ کے بعد سب مسلمان عید کے دن افطار کرتے ہیں پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔ اس کو عید افطار۔۔۔ کہہ لو یا عید الفطر معنی ایک ہی ہے۔
عید ِدیدار
“و فرحتان عند لقاء ربه “روزے دار کی دوسری عید اسی دن ہو گی جب جمال خدا کو دیکھے گا جب اللہ رب العزت کا دیدار نصیب ہوگا۔ حضرات محترم! اللہ کا دیدار بہت بڑی نعمت ہے اس بات کو یوں سمجھیں۔
شہید کی بڑی شان ہے۔۔۔۔
“ولا تقولو المن يقتل في سبيل الله اموات بل احياء”
شہید کو اتنی شان ہے ۔۔۔۔ اس لئے ملی کہ اس نے اپنی جان اللہ کے حوالے کر دی یوں کہا کہ یہ جان میری کب ہے؟ مجھے غلطی لگی تھی کہ جان میری ہے۔۔۔ نہ جسم میرا ۔ ۔۔ نہ جان میری ۔۔۔ خدایا!۔۔۔ یہ سب کچھ تیرا ہے۔۔۔ بس شہیدکی یہ ادا خدا کو پسند آ گئی ۔۔۔۔اللہ تو ادائیں دیکھتا ہے۔۔۔ بڑا بے نیاز ہے ۔۔ اسے ہماری نمازوں اور روزوں کی ضرورت نہیں ۔ کوئی روزہ رکھے نہ رکھے اسے کیا پروا کوئی نماز پڑھے نہ پڑھے اس کا کیا گھٹتا ہے ؟ ۔۔ نفع و نقصان تو بندوں کا ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
ان الله لا ينظر الى صور كم ولا الى اعمالكم” “
اللہ نہ تمہاری صورتیں دیکھتا ہے نہ تمہاری شکلیں دیکھتا ہے نہ تمہار الباس دیکھتا ہے ۔۔۔ نہ تمہارے اعمال دیکھتا ہے ۔ “ولكن الله ينظر الى قلوبكم” ( في رواية ) “و نيانكم”
اللہ تو تمہاری دلوں کی نیتیں دیکھتا ہے کہ نیت کس کی سچی ہے؟ میرے ساتھ مخلص کون ہے؟ نیت کس کی درست ہے ؟ اندر سے میرے ساتھ کون ہے ؟ زبانی دعوے کون کرتا ہے کہ میں اللہ کا ہوں اور واقعی میرا کون ہے؟ اللہ یہ دیکھتا رہتا ہے ۔ جب شہید کہتا ہے ! یا اللہ نہ جسم میرا ۔۔۔ نہ جان میری۔۔ میں بھی تیرا ۔۔۔ یہ جان بھی تیری۔۔۔ یہ جان میں تیرے حوالے کرتا ہوں جو چاہے کر لےشہید کی یہ ادا اللہ کو پسند آ گئی۔
حضرات بندے دو ہی ہیں۔
٭ بنده شهید
٭ بنده عاشق
ان کے علاوہ سب گندے ہیں ۔۔۔ وہ اصل میں بندے ہی نہیں بلکہ بڑے مندے ہیں ۔ ۔ ۔ حضرت میاں محمد بخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسی مفہوم کو یوں بیان فرمایا۔
جان منگے تے دیر نہ کریے اگے یار سجن دے
عاشق تے شہید محمد نہیں محتاج کفن دے
روزے دار کی ذات میں بھی شہادت کا ایک مفہوم پایا جاتا ہے۔ لفظ شہید کا لغوی معنی ہے، دیکھنا ، مشاہدہ کرنا۔
“الشَّهَادَةُ وَالشُّهُودُ مَعَ المُشَاهَدَةِ إِمَّا بِالبَصَرِ أَوْ بِالبَصِيرَةِ “( مفردات امام راغب )شہید مشاہدہ کرنے والے کو کہتے ہیں ، جو دیکھ لے ۔۔ خواہ دل کی آنکھ سے دیکھے خواہ سر کی آنکھ سے دیکھے۔“
ارشاد ربانی ہے:
“يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا” (الاحزاب : ۴۵)”
اے محبوب! تیرے خدا نے تجھے ایسا شاہد بنایا ہے کہ تو مجھے کبھی دل کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور کبھی سر کی آنکھوں سے ۔۔ تو مجھے دیکھتا رہتا ہے، میں تجھے دیکھتارہتا ہوں ۔۔۔۔ فانک با عینا
حضرات محترم! شہید دو طرح کے ہوتے ہیں۔
٭ شهيد كفار
٭ شهید قهار
جو شخص کافروں کے ہاتھ سے شہید ہو جائے وہ شہید کفار ہے ۔ اور جو اللہ کی محبت کی تلوار سے شہید ہو جائے ، وہ شہید قہا
ایک بات کہتا ہوں، اولیاء اللہ بھی شہید ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ محبت الہی کی تلوار سے ذبح ہوتے ہیں ۔ ولی اسے کہتے ہیں جو اللہ کی تلوار سے ذبح ہو جائے ، اس طرح ذبح ہو جائے کہ اس میں اپنا کچھ نہ رہے۔
“اتنی رمز پچھانو یارو بہت کراں کیہہ گلاں
میں کر یوں ہتھ واگ بلوچے جدھر چلاوے چلاں ”
اللہ کی مرضی پر مرمٹنا یہ بھی شہادت ہے۔ اللہ کے خنجر تسلیم سے قتل ہو جانا ، یہ ولایت ہے ۔۔۔ جو فولادی تلوار سے شہید ہو جائے ، وہ شہید کفار ہوتا ہے ۔۔ اور جو عشق الہی کی تلوار سے شہید ہو جائے وہ شہید قہار ہوتا ہے۔ عشق بھی تلوار ہے ۔۔۔ جس جس پر چل گئی ، وہ فنا ہو گیا ۔۔۔ اس کی مرضی میں جو فنا ہو گیا ، و مرتبہ بقا پا گیا ۔۔۔ عشق کی تلوار ۔۔۔ فقراء اولیاء پر چلتی ہے۔
کسی عاشق نے کیا بات کہی قلم توڑ دیئے۔
“بسیار دیده ام که یک را دو کر دیتیغ
شمشیر عشق میں کہ دو کس را یکے کند”
جب لوہے کی تلوار چلتی ہے ایک کو دو کر دیتی ہے ، جب عشق کی تلوار چلتی ہے تو دو کو ایک کر دیتی ہے ( سبحان اللہ )
دیدارِ خدا
حضرات ! کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جب عشق کی تلوار چلے تو پھر یار کا دیدار ہو جاتا ہے یار کا دیدار دو مقام پر ہوتا ہے۔
ایک شہید کو ۔۔۔۔ جب اس کی گردن کٹتی ہے۔۔۔ اس کے جسم سےروح نکلتی ہے اس کے خون کا پہلا قطرہ بعد میں زمین پر گرتا ہے ۔ ۔ وہ خدا کو پہلے دیکھ لیتا ہے۔
اور دوسرا مقام ۔۔۔ جب روزہ دار شام کو روزہ افطار کرتا ہے۔ پانی کا گھونٹ اور روٹی کا لقمہ پیٹ میں بعد میں گرتا ہے خدا کو پہلے دیکھ لیتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ مومن کو افطار کے وقت خدا کا دیدار ہوتا ہے اس پر ایمان رکھو ۔۔۔۔ یہ فرمان نبوت ہے اس میں شک نہ کرنا ۔
متکلم کو دیکھنے کو جی چاہتا ہے موسیٰ کلیم نے جب اللہ کا کلام سنا ۔۔۔ وہ کلام جو از لی، حقیقی ، ذاتی ، بے کیف، بے صوت ، بے لحن ، بے جہت ، بے تعین ، تو دل و دماغ میں اتر تا گیا۔ شوق پیدا ہوا کہ جس کا کلام اتنا میٹھا ہے، وہ خود کتنا میٹھا ہو گا
جب موسیٰ علیہ السلام کو شرف ہم کلامی سے نوازا گیا تو لذت کلام ، شوق دید کا مطالبہ بن گئی اور عرض کی ۔۔۔ رب ارنی ۔ ۔ ۔ مولا ! ذرا سا منے تو آ۔۔۔ اب پردہ بھی ہٹا ۔۔ اللہ نے فرمایا۔۔۔ لن ترانی۔۔ تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے
حضرات!
اُدھر خدا اپنے کلیم کو فرماتا ہے کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا اور ادھر اپنے حبیب کو معراج کی رات بلا کر۔۔۔ سارے پردے اٹھا کر ۔۔ فرماتا ہے تو مجھے دیکھتا جا اور میں تجھے دیکھتا جاؤں ۔
سخاوت رسول ﷺ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور سب سے زیادہ رمضان المبارک میں آپ سخاوت کرتے تھے ، رمضان المبارک میں ہر رات حضرت جبرائیل علیہ السلام آتے اور رسول الله کے ساتھ قرآن کا دور کرتے یعنی سنتے اور سناتے تھے اور مال کی سخاوت رمضان المبارک میں اتنی فرماتے جس طرح تیز آندھی چلتی ، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔

(صحیح بخاری شریف ، کتاب الوحی ، ، جلد نمبر ۱، ص ۹، سنن نسائی کتاب الصیام ، باب الفصل ، مشکوة شریف ، کتاب الصوم، باب الاعتكاف الفصل الاول)
کتنا ستا جنت کو میرے آقا ﷺ نے فرمایا:
حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمیں وعظ فرمایا اے لوگوں عظمت والا مہینہ تمہارے اوپر سایہ کرنے والا ہے یہ مہینہ برکت والا ہے۔ اس کے اند ایک ایسی رات ہے جو ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کے روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں اور جس کی رات کا قیام نفل بنایا ہے ۔ جس آدمی نے اس مہینہ میں نفل سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا تو اس کو ستر فرض کا ثواب ملے گا جو اس مہینہ میں فرض ادا کرے تو اس کو ستر فرضوں کا ثواب ملے گا یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے یہ غریبوں کی غم خواری کا مہینہ ہے اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے جو اس مہینہ میں کسی کو افطار کرائے تو اس کے گناہوں کو معاف کر دیا جاتا ہے دوزخ سے اس آدمی کی گردن آزاد کر دی جاتی ہے جس نے روزہ افطار کرایا اس کو بھی اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ افطار کرنے والے کو ثواب ملتا ہے ہم نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم میں ہر آدمی افطار کرانے کی طاقت نہیں رکھتا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ثواب اسے بھی ملے گا جو روزہ دار کو ایک گھونٹ دودھ یا کھجور یا گھونٹ بھر پانی سے افطار کرائے” و من اشبع صائما سقاه الله من حوضى شربة لا يضما حتى يدخل الجنة” ( ترجمہ: اور جو روزہ دار کو سیر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض سے پلائے گا اور کبھی بھی پیاسا نہیں ہو گا حتیٰ کہ جنت میں داخل ہو جائے گا اس مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت والا دوسرا عشرہ بخشش والا اور تیسرا عشرہ آگ سے آزادی والا اور جو آدمی اس مہینہ میں غلام سے تخفیف کرے اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرمائے گا
(مشکوة ، كتاب الصوم ، ص ۱۷۳ تفسیر بغوی جلد نمبر ۱، ص ۲۲۲ ۲۲۳)