دعا کے آداب
تعارف: دعاکے آداب کا خلاصہ
دعا ایک ایسا راز ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان ہوتا ہے، ایک عاجزانہ التجا جو آسمانوں تک جاتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِـىٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ “مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا” (سورۃ غافر: 60)۔ یہ وعدہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ہمارا خالق ہماری ہر بات سننے والا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے بھی دعا کو عبادت کا مغز قرار دیا اور ہمیں یہ سبق دیا کہ دعا کرتے وقت خالص نیت، عاجزی اور دل کی گہرائیوں سے اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ جب ہم دعا میں اپنے ہاتھ اُٹھاتے ہیں، تو یہ ایک یاد دہانی ہے کہ ہم محتاج ہیں، عاجز ہیں، اور اُس کے کرم کے طلبگار ہیں۔ دعا کے آداب میں اخلاص اور خشوع کا ہونا نہایت ضروری ہے، تاکہ ہم اپنی خود غرضی، غفلت اور نفس کی فریب کاریوں کو پہچان سکیں اور ایک سچے دل سے اللہ کی طرف رجوع کر سکیں۔
دعاکی تیاری: جسمانی اور ذہنی تیاری
دعا کی تیاری میں جسمانی اور ذہنی طور پر پاکیزگی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ قرآن ہمیں طہارت اور پاکیزگی کی طرف بار بار متوجہ کرتا ہے، کیونکہ دل اور جسم کی صفائی ہمیں اللہ تعالیٰ کی قربت کی طرف لے جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ“بےشک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے” (سورۃ البقرہ: 222)۔ جب ہم دعا سے پہلے وضو کرتے ہیں، تو یہ ظاہری طور پر ہمیں پاکیزگی اور عاجزی کا درس دیتا ہے۔ وضو نہ صرف جسم کو بلکہ دل کو بھی دعا کے لیے تیار کرتا ہے، اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے اس کی یاد دہانی کراتا ہے۔
ذہنی طور پر تیاری بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی جسمانی تیاری۔ جب ہم دعا کرنے لگتے ہیں تو ہمیں اپنے دل کو دنیاوی فکروں اور خیالات سے آزاد کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دعا میں صرف ہمارا اور اللہتعالیٰ کا تعلق ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، “جب تم اللہ تعالیٰ سے مانگو تو پورے یقین سے مانگو“۔ یہ حدیث ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ دعا میں مکمل یقین اور اخلاص ہونا چاہیے۔ جب ہم دل سے اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف مرکوز کرتے ہیں، تو ہمارے دل میں چھپی لاپرواہیاں اور خامیاں خود بخود عیاں ہونے لگتی ہیں، اور ایک عجیب سی روشنی ہمیں اللہ تعالیٰ کے مزید قریب لے جاتی ہے۔
نیت: اخلاص کے ساتھ مقصد طے کرنا
نیت میں اخلاص دعا کی قبولیت کی بنیاد ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، وَمَآ اُمِرُوٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّـٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَـهُ الدِّيْنَ“اور انہیں حکم نہیں دیا گیا مگر یہ کہ خالص اللہ کی عبادت کریں” (سورۃ البینہ: 5)۔ اخلاص کا مطلب ہے کہ ہم اپنی دعا کو صرف اللہ کے لئے خالص کریں، کسی اور کی خوشنودی یا دکھاوے کے لئے نہیں۔ یہ اس بات کا عہد ہوتا ہے کہ ہمارا مقصد دنیاوی طلبات یا عارضی فائدے نہیں بلکہ اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ جب ہم اللہ کے حضور پوری سچائی سے حاضر ہوتے ہیں، تو اللہ تعالی ہمارے دل کی پکار کو سنتا ہے، اور یہ ہی اخلاص ہماری دعا کو مزید قوت اور پاکیزگی عطا کرتا ہے۔
اخلاص کے ساتھ نیت کا ہونا ہمیں دعا میں عاجزی اور دل کی نرمی عطا کرتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، “اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے” (بخاری)۔ یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ تعالی ہمارے دل کی حالت اور ہماری نیت کو دیکھتا ہے۔ جب ہم دعا کے وقت یہ مقصد طے کر لیں کہ ہمیں اللہ کی رضا اور خوشنودی درکار ہے، تو ہماری دعا میں ایک خاص روحانی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔ دعا کے لمحے میں جب انسان اپنے دل کی کمزوریوں اور خطاؤں کا احساس کرتے ہوئے اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کرتا ہے، تو اس کا دل اللہ کے قرب کی روشنی سے منور ہو جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف دعا کی قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، بلکہ یہ دل کو سکون اور روح کو تازگی عطا کرتی ہے۔
دعا مانگنے کا طریقہ کار :جسم اور دل کو سیدھ میں لانا
دو زانو بیٹھ کر ہاتھوں کو کشکول بنا کر سینے کے سامنے کرکے مالک اور معبود کے تصور کے ساتھ خود کو عبد سمجھتے ہوئے دعا مانگنے کا بہترین طریقہ ہے اور ہم اپنے جسم اور دل کو اللہ کی طرف پوری عاجزی اور توجہ سے سیدھ میں لے آئیں۔ قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے، اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ۚ“اور اپنے رب کے حضور عاجزی اور خوف سے دعا کرو” (سورہ الاعراف: 55)۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دعا صرف زبان سے نہیں بلکہ دل سے مانگی جاتی ہے، اور جب ہم جسمانی اور قلبی طور پر اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ہماری دعا کی گہرائی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اللہ کے سامنے ہاتھ بلند کرنے کا یہ مطلب ہے کہ ہم اپنی تمام حاجات اور پریشانیوں کو اس کے سامنے رکھ رہے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہماری فریاد کو سننے والا ہے۔
جب دل کی یکسوئی اور جسم کی عاجزی کے ساتھ دعا مانگی جاتی ہے، تو یہ ہمیں اللہ کے قریب لے آتی ہے اور ہماری دعاؤں میں وہ تاثیر پیدا ہوتی ہے جس کا ہم انتظار کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، “اللہ دل کی اس دعا کو سنتا ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ کی جاتی ہے”۔ جسم اور دل کو سیدھ میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری تمام توجہ، امید اور یقین صرف اور صرف اللہ پر ہو۔ یہ وہ لمحات ہیں جب ہمیں اپنی زندگی کی لاپروائیوں اور خطاؤں کا احساس ہوتا ہے، اور ہم اللہ کی رضا و خوشنودی کے طلبگار بن جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں جب دل و جان سے مانگی گئی دعا اللہ کے سامنے پیش کی جاتی ہے، تو وہ دعا قبولیت کے قریب تر ہوتی ہے۔
توجہ مرکوز کریں اور خلفشار سے بچیں۔
دعا مانگتے وقت مکمل توجہ اور دل کی یکسوئی کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالی کے حضور دل کی اس سچی کیفیت کے ساتھ کھڑا ہونا ہی ہمیں قربِ الہی کی طرف لے جاتا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے، اَلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُـهُـمْ بِذِكْرِ اللّـٰهِ ۗ اَلَا بِذِكْرِ اللّـٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ”یاد رکھو، دلوں کا اطمینان صرف اللہ کے ذکر سے ہوتا ہے” (سورہ الرعد: 28)۔ یہ آیت ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہماری روح کا سکون اللہ کی طرف مکمل توجہ سے ممکن ہے۔ دعا کے وقت ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ دل و دماغ میں سوائے اللہ کے کسی اور خیال کو جگہ نہ دیں۔ ہمیں اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہو کر اللہ کے سامنے یوں جھکنا چاہیے جیسے ہم اس کے سامنے عاجز اور محتاج ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے بھی دعا کے وقت دل کی یکسوئی کو ضروری قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، “دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب دل دعا کے ساتھ یکسو ہو”۔ آج کی مصروف زندگی میں یہ ایک چیلنج بن چکا ہے کہ ہم پوری توجہ کے ساتھ اللہ سے رجوع کریں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اللہ سے رجوع کرتے وقت تمام خیالات اور خلفشار سے آزاد ہو کر دعا مانگنی چاہیے۔ یہ دعا نہ صرف ہماری روح کو سکون دیتی ہے بلکہ ہماری زندگی کی لاپروائیاں بھی دور کرتی ہے۔ جب ہم پوری توجہ کے ساتھ اللہ سے مانگتے ہیں، تو اللہ ہمارے دل کی سچائی کو دیکھ کر ہماری دعاؤں کو قبولیت کا شرف بخشتا ہے۔
اجتماعی دعا کا احترام
اجتماعی دعا کا احترام ہر مسلمان پر فرض ہے کیونکہ اس میں ایک اجتماعی جذبہ، اخلاص اور اللہ کے حضور جھکنے کا پیغام ہوتا ہے۔ جب سب لوگ مل کر دعا کرتے ہیں تو یہ ایک ایسی طاقت بن جاتی ہے جو انفرادی دعا سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا،وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّـٰهِ جَـمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۚ “اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ نہ کرو” (سورہ آل عمران: 103)۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جب ہم مل کر اللہ سے دعا مانگتے ہیں تو ہمارے دل ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں، اور یہ اتحاد اللہ کو بھی پسند ہے۔ اجتماعی دعا میں جب دلوں میں موجود لاپروائی اور گناہوں کی گرد مٹتی ہے تو دل سے سچی پکار بلند ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، “اللہ کی رحمت وہاں نازل ہوتی ہے جہاں لوگوں کے دل ایک ہو جاتے ہیں اور وہ خلوص کے ساتھ اللہ سے دعا مانگتے ہیں”۔ اس لئے جب ہم اجتماعی دعا میں شامل ہوتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم اپنی پوری توجہ، ادب اور خلوص سے دعا میں شریک ہوں۔ ہماری سوچیں، نظریں اور دل سب اللہ کی طرف ہو اور ہم میں ہر ایک کو یہ احساس ہو کہ یہ وقت اللہ کے سامنے جھکنے، اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنے اور اللہ کی رحمت کا طلبگار ہونے کا ہے۔
دعا کا اختتم: شکر گزاری اور غور و فکر
دعا کا اختتام شکر گزاری اور غور و فکر کے ساتھ کرنا ہماری روحانیت میں گہرائی اور دل میں عاجزی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ جب ہم دعا کے بعد اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں، تو ہم دراصل اس بات کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے ہر لمحے میں اللہ کا کرم شامل ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: “جو لوگوں کا شکر گزار نہیں، وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں” (ترمذی)۔ تو سوچیں، اگر ہم اپنی ہر دعا کے بعد اللہ کا شکر ادا کریں تو یہ ہماری زندگی کے ہر پہلو میں کتنی مثبتیت اور سکون لے آئے گا۔ غور و فکر کا لمحہ ہمیں یہ سمجھنے کا موقع دیتا ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اللہ کا انعام ہے، اور جو ہم مانگ رہے ہیں وہ بھی اللہ کے فضل سے ہی ہمیں ملے گا۔ دعا کے بعد کا یہ لمحہ ہمیں خود کو اپنی کمیوں اور خطاؤں پر غور کرنے کا موقع دیتا ہے اور ہمیں اس مقام تک لے جاتا ہے جہاں ہم اپنی لاپروائیوں سے نکل کر اللہ کی رحمت کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔
دعامیں عام غلطیوں سے بچنا
دعا میں اکثر ہم لاپروائی اور بے دھیانی سے کچھ ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں جو ہماری دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ بعض اوقات ہم دعا میں دل سے مانگنے کے بجائے محض زبانی کلمات دہرا رہے ہوتے ہیں، اور دل اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: وَاللہُ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمٌ”اللہ تمہارے دلوں کا حال جانتا ہے” (سورہ الحدید: 16)۔ دعا کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ ہم اپنے دل کی گہرائیوں سے اللہ کو پکاریں، اس کے سامنے اپنی ہر کمزوری، اپنی ہر خطا کا اعتراف کریں اور اخلاص کے ساتھ اس کی رحمت کے طلبگار بنیں۔ لیکن اگر ہم بے دھیانی سے دعا کریں تو ہم خود اپنے خالق سے دور ہو جاتے ہیں۔
دعا کے وقت ہمارا دل دنیاوی خیالات میں الجھا ہوتا ہے یا ہم جلدی میں دعا ختم کر دیتے ہیں، جیسے ہمیں اللہ سے کچھ مانگنے کی فرصت ہی نہیں۔ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہم جب بھی جھکتے ہیں، وہ ہمیں سن رہا ہوتا ہے اور ہماری پکار کو اہمیت دیتا ہے۔ دعا ایک موقع ہے خود کو اللہ سے جوڑنے کا، اپنے گناہوں سے پاک ہونے کا، اپنی روح کو تقویت دینے کا۔ تو کیوں نہ ہم دعا میں دل سے اس سے مانگیں، خود کو اس کے حوالے کر دیں اور اپنی لاپروائیوں کا ازالہ کریں؟
دعا کو ترقی کا سفر بنانا
دعا کو ترقی کا سفر بنانا دراصل دل و روح کو رب سے جوڑنے کا ایک عظیم راستہ ہے۔ ہم جب اپنی عاجزی اور بےبسی کو اللہ کے سامنے رکھتے ہیں تو یہ خود کو رب کے قریب کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ ہر دعا ہمیں ایک قدم آگے بڑھاتی ہے، ہمارے اندر چھپی خامیوں کو دور کرنے کا باعث بنتی ہے۔ حدیث میں ہے: “دعا مومن کا ہتھیار ہے” (ترمذی)۔ سوچیں، جب ہم اپنی دعاؤں میں اخلاص اور یقین کے ساتھ اللہ سے بہتری کی طلب کریں، تو ہمارا ہر قدم سکون، اطمینان اور ترقی کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ دعا ہمیں نہ صرف دنیاوی ضرورتوں کے لیے مانگنے کا حوصلہ دیتی ہے بلکہ ہمارے دل کی تاریکیوں کو روشنی میں تبدیل کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔ اگر ہم اپنی دعا کو اپنے کردار کی تعمیر کا ذریعہ بنائیں، تو یہ ہمیں نہ صرف مشکلات سے نکلنے کی طاقت دے گی بلکہ ہمیں اندرونی طور پر مضبوط اور پر اعتماد بھی بنائے گی۔ دعا کو فقط الفاظ کا مجموعہ نہ سمجھیں، بلکہ اسے دل سے، نیت سے، ترقی کی راہ پر چلنے کا عہد بنا دیں۔