ہماری مشکلات اور ان کا صحیح حل

عبادات

اسلامی عبادات میں چار بنیادی اعمال ہیں، نماز، روزہ، حج ، زکوۃ مگر شعورِ بندگی قائم رکھنے کے لئے ان تمام اعمال میں نماز ہی ایک ایسا عمل ہے جو امیر و غریب ، مرد و عورت ، غلام و آزاد سب کے لئے یکساں طور پر ضروری قرار دیا گیا ہے۔ زکوۃ ، حج ، روزہ کی طرح نماز دولتمندی یا مخصوص مہینے یا خصوص حالات سے مشروط نہیں ہے۔ بلکہ نماز ایک ادائے عام ہےجس سے ہر شخص خیر و برکت حاصل کرتا ہے۔

اسلامی صحیفہ اور احادیث میں نماز کی بے حد تعریف اور بار بار تا کید کی گئی ہے کیونکہ یہی وہ عمل ہے، جس سے تزکیہ نفس و تظہیر قلب کے علاوہ بندہ اپنے خالق کے ساتھ تعلق قائم رکھ سکتا ہے۔ اسی لئے اسلامی عبادات میں فریضہ نماز کو اولیت حاصل ہے اور سب سے زیادہ زور اسی بات پر دیا گیا ہے۔ نماز ہی بندہ مومن میں اطاعت و بندگی کے جذبہ کو بیدار کرنے والی چیزوں میں سب سے اہم ہے، اس کی ایمانی قوت کا ثبوت ہے۔ اس کے اخلاق کی سلامتی و حفاظت کا ذریعہ ہے، جس میں مختلف گونا گوں حرکات و سکنات سے اسے اظہار عبودیت کا موقع مل کرسکون قلب اور اطمینان بھی حاصل ہوتا ہے۔

 پاک وصاف ہو کر صحیح نیت اور پختہ ارادے کے ساتھ جب بندہ کامل بندگی سے اپنےرب کے حضور میں عاجزانہ اور مخلصانہ طورپر حاضر ہو کر اقرار بندگی کرتا ہے اور اپنے مصائب و آلام، جہالت و ظلمت میں ربانی روشنی کا منتظر اور صراط ِمستقیم کا طالب ہوتا ہے ، با ادب کھڑا ہو کر لجاجت سے جھک کر عجز وانکساری سے سجدہ ریز ہو کر تو بہ واستغفار کے مختلف مدارج طے کرتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ واقعی اس کا خالق ورازق، مالک و مولی اسے خود دیکھ رہا ہے اور وہ اسے ہر قسم کی نعمتوں سے ضرور نوازے گا۔ اس طرح رب کی بندگی سے عاجز انسان کو اپنے رب ہی سے مدد حاصل کرنے اور رب ہی کی عبادت کرنے کی مشق ہوتی ہے۔ اور بالآخر وہ ہدایت د نجات سے شاد کام ہوتا ہے۔

عبادت کے لیے فراغت

اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے فارغ ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ بندہ دن رات حصول رزق کے لیے کوشش نہ کرے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ:
جب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے تو اس کا دل اور جسم دونوں حاضر ہوں ، عبادت میں خشوع و خضوع ہو ، رب ذو الجلال کی عظمت و کبریائی اس کے دل میں ہو۔ اس کو اس بات کا احساس ہو کہ وہ کائنات کے مالک اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہے اور حضور ﷺ کا یہ ارشاد مبارک بھی سامنے ہو جس میں اس طرح عبادت کرنے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ: “اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم انہیں دیکھ رہے ہو ۔”

اگر یہ کیفیت نہ ہوتو کم از کم یہ تو ہو: “اگرتم انہیں نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہے ہیں “(کتاب الایمان، باب معرفه الایمان و الاسلام: ۱/۲۷)

حضور نبی ﷺ نے اس حدیث شریف میں امت کو خبر دی ہے کہ توجہ اور دل جمعی سے عبادت کرنے والوں کو درج ذیل انعامات عطا فرمانے کا خود اللہ رب العزت نے وعدہ فرمایا ہے:

  خوش حالی سے اس کے دل کو بھرنا۔
رزق سے اس کے دونوں ہاتھوں کو بھرنا۔

مذکورہ بالا حدیث شریف میں جناب رسول کریم ﷺنے امت کو یہ بھی بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دوری اختیار کر نیوالے کے لیے ان کی طرف سے درج ذیل عذابوں کی وعید ہے:
اس کے دل کو محتاجی اور فقر سے بھر دینا۔

بے کار کاموں میں اس کو الجھا دینا۔

اور جس دل کو دلوں کے پیدا کرنے والے خزانوں کے مالک اللہ تعالی تو نگری سے لبریز کر دیں، محتاجی کا احساس اور دست نگری کا تصور کیسے اس کے قریب پھٹک سکتا ہے اور جس کےہاتھوں کو کائنات کے رزاق رزق سے بھر دیں وہ غربت وافلاس کا شکار کیوں کر ہو سکتا ہے؟ اور جس کے دل کو کائنات کے مالک جل جلالہ محتاجی سے بھر دیں، کائنات کی ساری قوتیں متحد و متفق ہو کر بھی اس کو تو نگر و آسودہ حال نہیں بنا سکتیں اور جس کو اللہ جبار و قہار بے کار اور لایعنی معاملات میں پھنسا دیں ، اس کو بھلا فراغت کون مہیا کر سکتا ہے؟ (ماخوذ از رزق کی کنجیاں)
لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے آپ کو فارغ کر کے یعنی دل و جسم دونوں کو حاضر کر کے ، اس طرح کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں تا کہ دنیا اور آخرت میں راحت حاصل کر سکیں۔

ہر پریشانی کا علاج نماز

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: 

[سورة البقرة: ۴۵] وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ

ترجمہ:  اور صبر اور نماز کے ذریعے ( اللہ عز وجل سے) مدد چاہوں۔“

حضرت علامہ جلال الدین سیوطی” اس آیت کی تفسیر میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل فرماتے ہیں:    “یہ دونوں ( نماز اور صبر ) اللہ سے مدد لینے کا ذریعہ ہیں تم ان کے ذریعے اللہ سے مدد طلب کرو۔”  ( الدر المنثور: ۱۱/۴۵)

حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں :  “اپنی دینی اور دنیوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ( عبر اور نماز سے مددلو)”( التفسير للمظهري : ۱/۱۵۱)

نماز سے حاصل ہونے والی چند راحتیں اے

نماز دنیا و آخرت کی راحت کے حصول اور دونوں جہانوں کی مصیبتیں دور کرنے میں بڑی معاون اور مددگار ہے۔

یہ گناہوں سے روکنے والی ہے۔

قلب و قالب کی بیماریاں دور کرنے والی ہے۔

یہ دل اور چہرہ کو روشن اور منور کرنے والی ہے۔

روح اور جسم میں چستی پیدا کرنے والی ہے۔

یہ رزق کو کھینچ کر لانے والی ہے۔

ظلم سے روکنے والی اور مظلوم کی مددکرنے والی ہے۔

بے حیائی اور برے کاموں سے روکنے والی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی حفاظت کر نےوالی ہے۔

یہ نماز آخرت کی سزا سے بچانے والی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت کو اُتروانے والی ہے۔

غم کو ہٹانے والی ہے۔

نماز سببِ راحت و سعادت ہے ۔ نماز اللہ تعالیٰ کے ذکر عبادت کو جمع کرنے والی ہےاس لیے یہ سینے کو کھولنے اور اس کی تنگی کو دور کرنے کا ذریعہ ہے۔

جو شخص نماز کا حق ادا کرنے کے ارادہ سے سکون اور اطمینان کے ساتھ نماز پڑھتا ہے وہ اپنے نفس کو ہلکا محسوس کرتا ہے اور اسے یوں لگتا ہے جیسے اس کے اندر چستی ، راحت اور تندرستی بھر گئی ہو اور منوں بوجھ اس کے سر سے اتر گیا ہو، یہاں تک کہ اس کا دل نماز ختم کرنے کو نہیں چاہتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز آنکھوں کی قوت ، روح کی تروتازگی ، دل کو راحت، اور آرام پہنچانے والی ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو تنگی اور گھٹن میں محسوس کرے تو اچھی طرح وضو کر کے نماز میں مشغول ہو جائے ، انشاء اللہ تعالی آرام پالے گا۔ چنانچہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے فرماتے : ” اے بلال! کھڑے ہو اور ہمیں نماز کے ذریعے راحت اور سکون پہنچاؤ۔(ابودائود،کتاب الادب)

یعنی جماعت کے لیے اقامت کہوتا کہ نماز پڑھ کر ہم تھکا دینے والے کاموں ( امت کی ترتیب و دیکھ بھال ) سے راحت حاصل کریں جیسا کہ ایک تھکا ماندہ مسافر اپنی منزل پا کر راحت حاصل کرتا ہے۔

اس لیے ہر پریشانی کے وقت میں نماز کی طرف متوجہ ہو جانا گویا اللہ کی رحمت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور جب رحمت الہی مساعدومد دمگار ہوتو پھر یا مجال ہے کسی پریشانی کی کہ باقی رہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالی علیہم اجمعین جو ہر قدم پر ﷺ کی اتباع فرمانے والے ہیں ان کے حالات میں بھی یہ چیز نقل کی گئی ہے۔

لہذا ہمیں اپنی تمام مشکلات و پریشانیوں میں نماز کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیے۔ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت فرما کر ہماری پریشانیوں اور مشکلات میں مدد فرما اور ان سےنجات عطا فرما۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top