کیا قرآن آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے؟
قرآن مجید، وہ الہامی کتاب جسے مسلمانوں کے لیے ہدایت کا ابدی سرچشمہ قرار دیا گیا، ہمیشہ سے انسانی دلوں میں سوالات اور عقیدت کا محور رہا ہے۔ ایک سوال جو اکثر ذہنوں میں ابھرتا ہے، وہ یہ ہے کہ “کیا قرآن آج بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے؟” اس سوال کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ قرآن مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے کی بنیاد ہے، اور اگر اس کے کسی حصے میں تبدیلی ہوئی ہوتی، تو یہ دینِ اسلام کے بنیادی اصولوں پر اثر انداز ہو سکتا تھا۔
لیکن قرآن کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ کتاب ہر قسم کی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ رہے گی۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
(سورہ الحجر: 9)اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الـذِّكْـرَ وَاِنَّا لَـهُ لَحَافِظُوْنَ
ترجمہ: “بے شک ہم نے یہ ذکر (قرآن) نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔”
یہ آیت اپنی وضاحت میں نہایت جامع ہے اور اس میں موجود دعویٰ اپنی قوت میں بے مثال ہے۔ قرآن خود ایک چیلنج پیش کرتا ہے کہ جو بھی اس کتاب کی حفاظت کا دعویٰ کرتا ہے، وہ اس بات کو عملی طور پر ثابت بھی کرے گا۔
قدیم زمانے میں تحریری حفاظت کا چیلنج
آج کے جدید دور میں کسی بھی بات یا مواد کو محفوظ کرنا ایک بہت ہی آسان عمل ہے۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجی ہے، ڈیجیٹل آرکائیوز ہیں، اور لامحدود ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن اگر ہم وقت کا پہیہ گھما کر 1400 سال پیچھے چلے جائیں تو اس وقت تحریری اور زبانی طور پر کسی چیز کو محفوظ رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
جیسا کہ انسان ہمیشہ سے اپنے اہم خیالات اور اقوال کو مختلف طریقوں سے محفوظ کرتا آیا ہے۔ کبھی ان کو تحریری شکل دے کر کتابی صورت میں محفوظ کیا جاتا ہے، کبھی لوگوں کو زبانی یاد کروا کر نسل در نسل منتقل کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات، لوگوں کے سامنے بار بار دہرایا جاتا ہے تاکہ وہ دل و دماغ میں رچ بس جائیں۔ کچھ اقوال کو کہانی کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے تاکہ ان کی تاثیر اور یادداشت طویل عرصے تک قائم رہے، یا پھر شاعری کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے کیونکہ شاعری اپنی دلکشی اور موزونیت کی وجہ سے ذہن نشین ہو جاتی ہے اور طویل عرصے تک یاد رہتی ہے۔
آئیں، اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک کی حفاظت کے لیے کیا ان تمام طریقوں پر زور دیا گیا تھا یا نہیں، اور کن کن طریقوں سے اس مقدس کتاب کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا گیا۔
اسلام کے آغاز کے زمانے میں کاغذ ناپید تھا، اور قرآن مجید کو محفوظ کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے گئے۔ عربوں میں زبانی یادداشت ایک انتہائی طاقتور ذریعہ تھا۔ قرآن کا اولین اور بنیادی طریقہ حفاظت نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام کا اسے زبانی یاد کرنا تھا۔ صحابہ نہ صرف خود اسے یاد کرتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیتے تھے۔ یہ زبانی حفاظتی نظام آج تک جاری و ساری ہے، اور دنیا بھر میں لاکھوں حفاظِ قرآن موجود ہیں، جنہوں نے قرآن کو مکمل طور پر اپنے سینوں میں محفوظ کیا ہوا ہے۔
قرآن کی کتابی شکل اور اس کی تدوین
قرآن مجید کو کتابی شکل میں محفوظ کرنے کا عمل نبی کریم ﷺ کے زمانے سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ قرآن کی ہر آیت جو نازل ہوتی، نبی ﷺ صحابہ کرام کو حکم دیتے کہ وہ اسے لکھ لیں۔ اس وقت کے کاتبین اسے مختلف مواد پر لکھا کرتے تھے جیسے کہ کھال، ہڈیوں، درختوں کے پتوں اور چمڑے پر۔ تاہم اس وقت قرآن کو مکمل کتابی شکل میں یکجا نہیں کیا گیا تھا، کیونکہ یہ نبی ﷺ کے زمانے میں جزوی حصوں میں نازل ہو رہا تھا۔
نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور آیا، تو جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظِ قرآن کی شہادت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر کو مشورہ دیا کہ قرآن کو کتابی شکل میں جمع کیا جائے تاکہ اس کی حفاظت ہو سکے۔ یہ ایک نہایت دور اندیش قدم تھا، جسے امت مسلمہ کی تاریخ میں نہایت اہمیت حاصل ہے۔
حضرت ابو بکر نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس اہم ذمہ داری کے لیے چنا، جنہوں نے تمام صحابہ سے قرآن کے مختلف حصے جمع کر کے ایک مصحف (نسخہ) کی شکل میں مرتب کیا۔ یہ قرآن کا اولین مکمل اور جامع تحریری نسخہ تھا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اہم کردار
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا، جس میں اسلام دور دراز کے علاقوں تک پھیل چکا تھا۔ اس وقت قرآن مختلف علاقوں میں مختلف لہجوں میں پڑھا جانے لگا، جس سے ایک ممکنہ فرق پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔ حضرت عثمان نے اس بات کو محسوس کیا اور فوری طور پر ایک اقدام اٹھایا۔ انہوں نے حضرت زید بن ثابت کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی، جس نے قرآن کو قریشی لہجے کے مطابق ایک معیاری نسخے میں لکھا اور اس کے نسخے مختلف علاقوں میں بھیجے۔ حضرت عثمان کا یہ اقدام قرآن کی حفاظت میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کے بعد سے قرآن کی تلاوت میں کوئی فرق نہیں آیا اور دنیا بھر میں مسلمان آج بھی ایک ہی قرآن پڑھتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمات
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا صرف و نحو (عربی گرامر) پر کام اسلامی علوم کے ارتقاء میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ آپ عربی زبان کے ماہر اور گہرے علم والے تھے، اور آپ کی بصیرت اور علم نے زبان کی ساخت کو منظم اور مضبوط بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ حضرت علی نے عربی زبان کو باقاعدہ بنانے کے لیے قواعد وضع کیے تاکہ قرآن مجید کی تلاوت اور اس کی درست تفہیم میں غلطی نہ ہو۔
عربی زبان کی اہمیت قرآن کریم کی وجہ سے بڑھ گئی تھی، اور غیر عرب مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ، زبان کی ساخت کو منظم کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو محسوس کیا اور اپنے ایک شاگرد، ابوالاسود الدؤلی کو عربی گرامر کے اصول مرتب کرنے کی ہدایت کی۔ آپ نے ان کی رہنمائی کی اور ابتدائی قواعد کی بنیاد فراہم کی، جن پر بعد کے زمانے میں علمائے کرام نے مزید کام کیا۔
حضرت علی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے زبان کی درستگی اور صحت کے ساتھ قرآن اور حدیث کی تفسیر کو یقینی بنانے کے لیے صرف و نحو کے بنیادی اصولوں کی بنیاد رکھی۔ ان کے کام کی بدولت عربی زبان کے قواعد مرتب ہوئے، جو بعد میں “علم النحو” اور “علم الصرف” کے نام سے معروف ہوئے۔
زبانی اور تحریری حفاظت کا عظیم امتزاج
قرآن کی حفاظت کا انحصار نہ صرف تحریری نسخوں پر رہا بلکہ زبانی یادداشت پر بھی رہا۔ حضرت عثمان کے نسخوں کے ساتھ ساتھ حفاظ کا ایک مضبوط سلسلہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے، جو نسل در نسل قرآن کو زبانی یاد کرتے آ رہے ہیں۔ یہ زبانی حفاظتی نظام اتنا مضبوط ہے کہ آج تک دنیا بھر میں حفاظِ قرآن موجود ہیں، جو قرآن کے ایک ایک حرف کو مکمل درستگی کے ساتھ یاد رکھتے ہیں۔
یہ زبانی اور تحریری دونوں حفاظتی نظام قرآن کی حفاظت کو مزید مضبوط بناتے ہیں۔ اگر کبھی کسی تحریری نسخے میں کوئی فرق آ بھی جائے، تو زبانی حفاظ اس فرق کو فوراً درست کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی زبانی یادداشت میں کوئی غلطی ہو، تو تحریری نسخے اس کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
عجمیوں کے لیے تلاوت کی سہولت
حجاج بن یوسف کا تذکرہ اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، خاص طور پر قرآن مجید کی تدوین اور اس کی عربی زبان کی وضاحت کے حوالے سے۔ حجاج بن یوسف الثقفی (661-714 عیسوی) بنو امیہ کے دور کے ایک طاقتور گورنر تھے، جنہوں نے نہ صرف سیاسی محاذ پر اہم کامیابیاں حاصل کیں بلکہ قرآن مجید کو غیر عرب مسلمانوں کے لیے مزید قابل فہم بنانے کے لیے عظیم کارنامے انجام دیے۔
حجاج بن یوسف نے دیکھا کہ جب اسلام غیر عرب علاقوں میں پھیل رہا تھا تو عجمی (غیر عرب) مسلمانوں کو عربی زبان کی پیچیدگیوں اور قرآن کی تلاوت میں مشکلات کا سامنا تھا۔ اس دور میں عربی رسم الخط میں حرکات (زبر، زیر، پیش) اور نقطے شامل نہیں تھے، جس کی وجہ سے کئی الفاظ کی درست ادائیگی اور تلاوت میں دشواری ہوتی تھی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حجاج بن یوسف نے قرآن پر حرکات اور اعراب (زبر، زیر، پیش) لگوانے کا اہتمام کیا تاکہ غیر عرب مسلمانوں کو قرآن مجید کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے میں آسانی ہو۔
اس عظیم کام کو انجام دینے کے لیے حجاج بن یوسف نے امام حسن بصری کے شاگرد اور معروف عالم نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر کو مقرر کیا۔ ان علماء نے قرآن کے رسم الخط میں نقاط اور حرکات شامل کیے، جن کی وجہ سے قرآن مجید کی تلاوت اور تفہیم میں بڑی آسانی پیدا ہوئی۔ اس کام کی بدولت قرآن مجید کو غیر عرب مسلمانوں کے لیے بھی پڑھنا اور سمجھنا آسان ہو گیا، اور اس کی تلاوت میں کسی قسم کی غلطی کا امکان کم ہو گیا۔
جدید تحقیقات اور آثار قدیمہ
آج کے دور میں جدید سائنسی تحقیق اور آثار قدیمہ کے ماہرین نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قرآن کی کتابی شکل میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ دنیا کے مختلف عجائب گھروں اور لائبریریوں میں موجود قرآن کے قدیم نسخے، جو حضرت عثمان کے دور کے ہیں، آج کے جدید نسخوں سے بالکل ہم آہنگ ہیں۔ یہ نسخے اس بات کا ثبوت ہیں کہ قرآن آج بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔
خطاطی کے ماہرین اور قدیم تحریری مواد کے محققین نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف یا تبدیلی نہیں ہوئی۔ جدید ڈیجیٹل تکنیکوں کی مدد سے قدیم نسخوں کی تحریر کا تجزیہ کیا گیا ہے اور ان کا جدید نسخوں سے موازنہ کیا گیا ہے، جس میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا گیا۔
قرآن کا الہامی نظامِ حفاظت
قرآن مجید کی حفاظت کا یہ نظام محض انسانی کوششوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک الہامی اور ربانی حفاظت ہے، جس کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ قرآن کا یہ دعویٰ کہ “ہم ہی اس کے محافظ ہیں” ایک ایسا دعویٰ ہے جو تاریخ کے ہر دور میں درست ثابت ہوا ہے۔ مسلمانوں نے ہر دور میں قرآن کی حفاظت کو اپنی اولین ترجیح بنایا، اور آج بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں قرآن کا ایک ہی نسخہ موجود ہے، جس میں نہ کوئی لفظ بدلا ہے اور نہ کوئی اضافہ ہوا ہے۔
یہ ایک معجزہ ہے کہ 1400 سال گزرنے کے باوجود، قرآن آج بھی اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں یہ نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوا تھا۔ یہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کے لیے ایک عظیم نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہمیشہ کے لیے محفوظ ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ پورا ہوا ہے۔
اختتامیہ
قرآن مجید آج بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے، اور اس کی حفاظت کا یہ نظام ایک عظیم الشان مثال ہے کہ کس طرح انسانی تاریخ میں کوئی دوسری کتاب اس درجہ حفاظت اور معجزانہ بقا کا حامل نہیں رہی۔ مسلمانوں کے لیے یہ ایک عظیم نعمت ہے کہ ان کے پاس اللہ کا کلام محفوظ حالت میں موجود ہے، اور یہ ان کی ایمان اور عقیدے کا مرکز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا جو وعدہ کیا تھا، وہ آج بھی پورا ہے اور قیامت تک پورا رہے گا۔
اس پیراگراف میں مختلف کتابوں کا نیچوڑ ہے۔(حوالہ جات: تاریخ الخلفاء، الکامل فی التاریخ،البدایہ والنہایہ)