واقعہ کربلا کی مکمل تفصیل
جب اہلِ کوفہ کے مسلسل خطوط امام حسین رضی اللہ عنہ کو موصول ہونے لگے، تو میرے دل میں بھی ایک امید جاگی کہ شاید اب ظلم کے اندھیروں میں حق کی روشنی جگمگانے والی ہے۔ مگر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جیسے دوراندیش والے صحابی نے نہایت حکمت سے امام کو مشورہ دیا کہ حالات کا براہِ راست اندازہ کیے بغیر وہاں جانا دانشمندی نہ ہوگی۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو اپنا نمائندہ بنا کر روانہ فرمایا۔ کوفہ میں آپ کا استقبال بے مثال تھا، اور ہزاروں افراد نے بیعت کر کے امام سے وفاداری کا یقین دلایا۔ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے پر امید خط بھیجا، جو امام کے دل میں اعتماد اور اطمینان کا باعث بنا۔ ان لمحات میں ایسا محسوس ہوا کہ حق کو شاید اپنے چاہنے والے مل گئے ہیں، لیکن وقت نے ابھی اپنے پردے پوری طرح نہیں ہٹائے ۔
- واقعہ کربلا کی مکمل تفصیل
- حضرت مسلم رضی اللہ عنہ اور حضرت ہانی رضی اللہ عنہ کی شہادت
- حضرت مسلم رضیاللہ عنہ ایک بوڑھی عورت کے مہمان اور اس کے بیٹے کی بغاوت
- حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا مقابلہ
- صاحبزادگان کی مدینہ روانگی
- محب اہل بیت داروغہ
- حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے بچوں کی تلاش
- چشمہ کے کنارے پر
- محبہ اہل بیت
- حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے صاحبزادوں کی شہادت
حضرت مسلم رضی اللہ عنہ اور حضرت ہانی رضی اللہ عنہ کی شہادت
حضرت مسلم رضی اللہ عنہ اور حضرت ہانی بن عروہ رضی اللہ عنہ ُکی گرفتاری کا واقعہ مؤرخین نے اس انداز میں نقل کیا ہے کہ جب حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی مسجد میں نمازِ مغرب کی نیت باندھی، تو اُس وقت آپ کے ساتھ تقریباً پانچ سو افراد موجود تھے، لیکن جونہی آپ نے سلام پھیرا، تو خود کو تنہا دشمن کے نرغے میں پایا۔ نہ کوئی مونس رہا، نہ کوئی غمگسار۔ کوفیوں کی بےوفائی سے دل مجروح اور جگر خستہ تھا۔ جدھر جاتے، راستہ نہ پاتے اور جدھر نظر کرتے، موت سامنے دکھائی دیتی۔ آخرکار آپ نے حضرت ہانی بن عروہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں پناہ لی۔ جب عبیداللہ بن زیاد کو اس کی خبر پہنچی، تو اُس نے حضرت ہانی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا۔ روایت ہے کہ حضرت ہانی نے کہا: “ہاں، آج کی رات حضرت مسلم رضی اللہ عنہ میرے گھر میں پناہ گزیں ہیں۔” طبری میں مذکور ہے کہ عبیداللہ ملعون نے حضرت ہانی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: “کیا مسلم بن عقیل تیرے گھر میں چھپے ہوئے ہیں؟” حضرت ہانی نے انکار کیا، تو عبیداللہ نے کہا:”قسم کھا”
حضرت ہانی نے اللہ کی قسم کھائی، مگر عبیداللہ نے اُنہیں گرفتار کر کے حوالات میں ڈال دیا اور اپنے آدمیوں کو اُن کے گھر بھیجا۔ انہوں نے حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر کے عبیداللہ کے سامنے پیش کیا۔ عبیداللہ نے حضرت مسلم اور حضرت ہانی دونوں کو قید میں رکھا۔ اتنے میں پچاس ہزار سے زائد لوگ جمع ہو گئے۔ پس عبیداللہ نے حکم دیا کہ حضرت مسلم اور حضرت ہانی رضی اللہ عنہما کی گردنیں مار کر اُنہیں قلعے سے نیچے پھینک دیا جائے۔
تاریخِ ابنِ ابی حاتم وغیرہ میں مذکور ہے کہ حضرت ہانی رضی اللہ عنہ کو حضرت مسلم رضی اللہ عنہ سے پہلے قتل کیا گیا۔ واقعہ یوں ہے کہ جب عبیداللہ بن زیاد نے حضرت ہانی کو لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنانے کی غرض سے قتل کر دیا، اور حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر پہنچی، تو آپ نے تقریباً ایک ہزار افراد کے ساتھ عبیداللہ سے قتال کے لیے کوچ کیا۔ لیکن جب ابن زیاد نے عوام کے ہجوم اور لشکر کی کثرت دیکھی، تو خوف میں مبتلا ہو گیا اور کہا: “ایسی مصلحت آمیز تدبیر کرنی چاہیے کہ باوجود قلتِ سپاہ ہم محفوظ رہیں۔” چنانچہ اُس نے قلعے میں بند ہونے کا فیصلہ کیا۔ ادھر حضرت مسلم بن عقیل قلعے تک پہنچے تو اُن کے ساتھ صرف تین سو کے قریب افراد رہ گئے۔ یہ دیکھ کر آپ کو شدید پریشانی لاحق ہوئی اور حیرت و مایوسی سے دائیں بائیں دیکھنے لگے۔ پھر بھی لوگ ساتھ چھوڑتے گئے، یہاں تک کہ صرف دس بارہ افراد رہ گئے۔ تب آپ بےاختیار چلا اٹھے: “اے لوگو! تم نے ڈیڑھ سو سے زائد خطوط بھیج کر ہمیں بلایا، اور اب دشمنوں کے حوالے کر کے ہمیں تنہا چھوڑ چلے؟” ابھی یہ بارہ افراد بھی جدا نہ ہوئے تھے کہ وہ بھی چلے گئے۔ ادھر ابن زیاد قلعے کی کھڑکی سے یہ منظر تماشا بنائے بیٹھا دیکھ رہا تھا، یہاں تک کہ رات کی تاریکی نے پورے آسمان اور اطرافِ عالم کو گھیر لیا۔
حضرت مسلم رضیاللہ عنہ ایک بوڑھی عورت کے مہمان اور اس کے بیٹے کی بغاوت
اس وقت حضرت مسلم رضی اللہ عنہ تنہا عبیداللہ بن زیاد کے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے کہ ایک بوڑھی عورت، طوعہ نامی، کا دروازہ نظر آیا۔ آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور پانی مانگا۔ اس نے پانی پلایا اور آپ کا حسب و نسب دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا: “میں ایک گرفتار، غمزدہ، غریب الوطن، اجڑے ہوئے خاندانِ نبوت کا ایک بجھتا ہوا چراغ ہوں۔ میرا نام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ہے، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا چچازاد بھائی ہوں۔ اگر تو آج کی رات مجھے اپنے گھر میں جگہ دے گی تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض تجھے جنت عطا فرمائے گا۔”
اس فرخندہ خصال عورت نے آپ کی بہت تعظیم کی، اور اپنے گھر میں لے جا کر کھانا پانی دیا اور حفاظت سے ایک علیحدہ مکان میں رکھا۔ شام کو اس کا بیٹا دیر سے گھر آیا اور اپنی ماں کو ایک عظیم الشان مہمان کی خدمت میں مصروف دیکھ کر پوچھا:
“تیری ایسی خوشی کا کیا باعث ہے اور یہ سرور کس بات کا ہے؟”
اس نے جواب دیا:
“اے بیٹا! اگر خوشی سے کلاہِ افتخار کا گوشہ آسمان پر پہنچاؤں اور مسرت سے پھولی نہ سماؤں تو سزاوار ہے۔ آج حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے میرے خانۂ بے فروغ کو رشکِ گلستان بنا دیا ہے۔ دیکھ بیٹا، میں نے اپنی سعادتِ آخرت جان کر انہیں چھپا رکھا ہے۔”
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا مقابلہ
ابن زیاد بدنہاد کی فوج حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کی متلاشی تھی۔ طوعہ کا بیٹا یہ سب سن کر رات تو سو رہا، مگر صبح ہوتے ہی ابن زیاد کے پاس جا کر حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کا احوال ظاہر کر دیا۔ اس ملعون نے فوراً محمد بن اشعث کو آٹھ آدمیوں کے ساتھ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرنے کے لیے بھیجا۔ محمد بن اشعث نے آتے ہی طوعہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ جب حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی تو آپ مصلیٰ سے اٹھے، اسلحۂ جنگ نازک بدن پر آراستہ کیا، میان سے تلوار نکالی اور رگِ ہاشمی جوش میں آ گئی۔ شیر، غزال اور فیلِ ژیان کی طرح گھر سے باہر نکل کر اس گروۂ بدخصلت پر حملہ کیا، اور ایک ہی حملے میں اکثر لوگوں کو جہنم واصل کر دیا۔ جس طرف تلوار لے کر بڑھتے، دس پانچ سپاہی آپ کی تیغِ بیدریغ کا علف بن جاتے۔ کسی کو بھی آپ پر قریب سے حملہ کرنے کی مجال نہ تھی، البتہ وہ بے دین دور ہی سے تیر چلاتے اور در و بام سے پتھر برساتے تھے۔ آخرکار محمد بن اشعث اور اس کے ساتھیوں نے آپ سے صلح کر لی اور امن دے کر باہم اتفاق سے کہنے لگے: “بخدا! آپ تلوار میان میں رکھیں اور ہمارے ساتھ دارالامارہ تک قدم رنجہ فرمائیں۔
“غرض یہ کہ اس مکر و حیلہ سے آپ کو گھر سے باہر لایا گیا اور ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا۔ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ تہلیل و تکبیر میں مشغول تھے، اور جب منادی کو سنا تو دونوں صاحبزادوں کو اپنے پاس بلایا اور آنکھوں میں آنسو بھر لائے۔ محمد اور ابراہیم قاضی کو روتے دیکھ کر چلا اٹھے اور نہایت غمگین ہو کر رونے کا سبب پوچھنے لگے۔ اس نے حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کی شہادت اور ان کے سر کو دمشق روانہ کرنے کی ساری کیفیت بیان کی۔ اتنا کہنا تھا کہ ان یتیموں، مہجور الوطنوں، اور بے کسوں سے بغلگیر ہو کر زار زار رونے لگے۔ پھر قاضی نے منادی کا حال اور ان کی تلاش میں گروہِ احوال کا تذکرہ کیا اور کہا: “اے یتیم بچو! غریب الوطن کے فرزندو! مصلحتِ وقت اسی میں ہے کہ آج تمہیں مدینہ کے قافلے کے ساتھ روانہ کر دوں۔”
صاحبزادگان کی مدینہ روانگی
چنانچہ جب شام ہوئی تو قاضی نے اپنے لڑکے کو ان دونوں صاحبزادوں کے ہمراہ کر کے کہا:
بیٹا! دروازۂ عراقین سے ایک قافلہ مدینۂ طیبہ کو جا رہا ہے، وہاں جا کر کسی صالح مرد اور نیک بخت شخص کے سپرد ان دونوں صاحبزادوں کو کر دینا، اور ہوشیاری کے ساتھ قافلے میں روانہ کر دینا۔ قاضی کا بڑا لڑکا، اسد نامی، دونوں کو ہمراہ لے کر مقامِ مقررہ پر آیا، مگر تقدیر کی خوبی سے قافلہ کوچ کر چکا تھا، اور اس کا گرد و غبار سامنے سے اڑتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اسد نے کہا: “صاحبزادو! دیکھو، وہ سامنے قافلہ جا رہا ہے، جلدی دوڑو اور اس میں شامل ہو جاؤ۔” یہ کہہ کر وہ ادھر آیا، ادھر قضا و قدر نے اور ہی ڈھنگ دکھایا۔۔۔یعنی چونکہ رات کا وقت تھا اور غم کی گھنگھور گھٹا، رنج کی کالی بدلی چاروں طرف جھوم جھوم کر آ رہی تھی۔۔۔دونوں یتیم بچے راہ بھول گئے۔ اتفاقاً ابن زیاد بداعتقاد کے پیادے، دونوں شہزادوں کو پکڑ کر کوتوالِ شہر کے پاس لے آئے۔ اس نے اسی وقت انہیں حوالات میں بھیج دیا، اور اس بے رحم نے بے حد حیا سوزی اور نہایت سفّاکی سے ان یتیموں کی مظلومی اور بے کسی پر کوئی رحم نہ کیا۔
محب اہل بیت داروغہ
قید خانہ کا داروغہ ایک پرہیزگار مسلمان، مشکور نامی محبِ اہلِ بیت اطہار تھا۔ اس نے ان دونوں آفت رسیدہ مظلوموں کو گلے سے لگایا اور دلاسہ دے کر اپنے پاس بٹھایا۔ جب رات ہوئی تو اپنے ہمراہ دونوں شہزادوں کو لے کر مقامِ قادسیہ آیا، اور اپنی انگوٹھی بطورِ نشانی دے کر کہا: “قادسیہ میں پہنچ کر میرے بھائی کو تلاش کرنا، وہ تمہیں مدینہ طیبہ بلا خوف و خطر پہنچا دے گا۔

اللَّهُمَّ احْكُمْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا، دَعَوْنَا فَكَذَّبُونَا، فَصَبَرْنَا عَلَىٰ مَا كَذَّبُونَا، ثُمَّ خَانُونَا۔
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ فرما، ہم نے انہیں دعوت دی تو انہوں نے ہمیں جھٹلایا، ہم نے ہر طریقے سے وضاحت کی، مگر وہ انکار پر اڑے رہے، پھر آخرکار ہمیں خود ہی بلایا اور خود ہی ہم سے بے وفائی کی۔
یہ پڑھتے ہوئے وہ اندر تشریف لے گئے۔ پس حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی ایک دیوار کے کنارے پر گردن ماری گئی، اور آپ کی لاش لوگوں کے روبرو ڈال دی گئی۔ اور اسی وقت حضرت ہانی کو بھی شہید کر دیا گیا۔ پھر حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور حضرت ہانی بن عروہ رضی اللہ عنہ کا سر، ہانی بن ابی حبیب اور زبیر بن اروٰی قَسِیمی کے ہاتھ یزید کے پاس بھیجا گیا۔ اس ملعون نے حضرت مسلم رضی اللہ عنہ اور حضرت ہانی رضی اللہ عنہ کے سروں کو باغیوں کے سروں کی طرح کوچہ و بازار میں پھرایا، جس سے نابکار کوفیوں کے دل میں کچھ شرمندگی کا اثر پیدا ہوا۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
اب اس غریب الوطن، مسافرِ راہِ عدم کے بے سر بدن کی تجہیز و تکفین کون کرے؟ اور آپ کی شہادت کی خبر حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ تک کون پہنچائے؟ اور شہرِ کوفہ میں آپ کے غم میں کون آنسو بہائے گا؟
حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے بچوں کی تلاش
الغرض جب حضرت مسلم رضی اللہ عنہ شہادت پا چکے تو ابن زیاد بد نهاد نے ہر گلی کوچے میں ڈھنڈورا پٹوایا کہ “مجھے خبر ملی ہے کہ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے دو صغیر سن بچے اسی شہر میں روپوش ہیں۔ جو شخص ان دونوں کے سر کاٹ کر دارالامارہ میں پیش کرے گا، وہ موردِ انعام اور محلِ احسان ٹھہرے گا۔ برخلاف اس کے، جس کے گھر میں وہ مخفی ہوں گے، اُس کا گھر لوٹ لیا جائے گا اور وہ عزیز جان سے مارا جائے گا۔”مجھے خبر ملی ہے کہ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے دو صغیر سن بچے اسی شہر میں روپوش ہیں۔ جو شخص ان دونوں کے سر کاٹ کر دارالامارہ میں پیش کرے گا، وہ موردِ انعام اور محلِ احسان ٹھہرے گا۔ برخلاف اس کے، جس کے گھر میں وہ مخفی ہوں گے، اُس کا گھر لوٹ لیا جائے گا اور وہ عزیز جان سے مارا جائے گا۔”
اس منادی کو سن کر بہت سے اوباش، کوچہ گرد، نٹھلے اور گلیوں کے بدمعاش، در و بام تکنے لگے اور چیونٹیوں کی طرح زمین میں نقب لگانے لگے۔ یہ دونوں صاحبزادے قاضی شریح کے گھر میں، جو اہلِ بیت سے دلی محبت رکھنے والا تھا، محفوظ تھے۔
قاضی نے ان دونوں بیچارے مصیبت کے مارے بچوں کو، جب قضا سر پر سوار دیکھی، خود پیادے مشکور سے رخصت ہو کر چلنے کا مشورہ دیا۔ مگر قضا و قدر کے دائرے سے کسی کا پاؤں بھی باہر نکلا ہے؟
دونوں راہ پیمائے ملکِ عدم، رات بھر چلتے رہے، مگر صبح جب آنکھ کھلی تو جہاں سے چلے تھے، پھر وہیں خود کو پایا۔ چنانچہ خوف کے مارے ایک کھوکھلے درخت کی کھوہ میں جا چھپے اور حضرت زکریا علیہ السلام کی طرح رضا و تسلیم کی حالت میں خاموشی سے قدم جمائے رہے۔
چشمہ کے کنارے پر
جب روزِ روشن ہوا تو ایک لونڈی آفتابہ لے کر چشمے پر آئی۔ شاید ان دونوں نونہالانِ باغ کا عکس اس چشمے میں پڑتا ہو گا۔ دیکھ کر حیران رہ گئی، اور ادھر اُدھر ہر جگہ جستجو کے بعد جب اس درخت کے پاس آئی، تو کیا دیکھتی ہے کہ دو صاحبزادے، جن کی نورانی پیشانی سے سعادت کا آفتاب درخشاں تھا اور ناصیہ سیم سیما سے نیک بختی کے آثار تاباں، درخت کی کھوہ میں چھپے بیٹھے ہیں۔
اس نے ان سے پوچھا: “اے صاحبزادو! تم کون ہو؟ اور کس اُجڑے ہوئے باغ کے پھول ہو؟”
ان دونوں تیمم یافتہ بچوں نے ہمدردانہ آواز سن کر اپنا سارا حال بیان کر دیا۔
محبہ اہل بیت
لونڈی حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کا نام سن کر مضطربانہ اپنی بی بی کے پاس آئی اور سارا قصہ بیان کیا۔بی بی تو اہلِ بیت کے نام پر جان و مال پہلے ہی سے قربان کر چکی تھی۔ بولی: “جلدی جا اور ان دونوں تیمم یافتہ بچوں کو فوراً لے آ!”
لونڈی آئی اور بہت سادگی سے، دلجوئی کر کے، اُنہیں اپنے ہمراہ لے گئی۔ اس بی بی فرخندہ خصال نے اس خوشی میں لونڈی کو آزاد کر دیا، اور خود خوشی خوشی اُن کی خدمت گزاری میں مصروف ہو گئی۔مہربان ماں کی طرح کہتی تھی:
“اے بے کسوں، مظلوموں، اے فرزندانِ معصوم! تم گھبراؤ نہیں، میں تمہارے لیے جان دینے سے بھی دریغ نہ کروں گی۔”
غرض یہ کہ اپنے ہاتھ سے کھانا کھلا کر ایک علیحدہ مکان میں آرام سے سُلا دیا۔ رات کو اس عورت کا شوہر، جو حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے فرزندوں کا متلاشی تھا، گھر میں آیا اور بغیر کھانا کھائے سرِ شام ہی سو رہا۔
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے صاحبزادوں کی شہادت
جب آدھی رات گزری تو ان دونوں صاحبزادوں میں سے بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو جگا کر کہا:
“اے برادر! اب سونے کا وقت نہیں رہا۔ میں نے ابھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے کہ حضور روضۂ جنان میں جناب حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ ُما کے ساتھ گلگشت فرما رہے ہیں اور بہشت کی خوبصورت وادیوں اور جدولوں پر ٹہل رہے ہیں۔ ہمارے والد اور ہم بھی وہاں موجود تھے، مگر جس وقت جنابِ رسالت مآب کی نظر ہم دونوں پر پڑی، آپ نے فرمایا:
‘اے مسلم! تم چلے آئے اور ان دونوں بچوں کو تنہا ظالموں میں چھوڑ آئے؟’

حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! وہ بھی میرے پیچھے پیچھے حاضر ہونے والے ہیں۔’
سو اے بھائی! یہ خواب یقین دلاتا ہے کہ ہم دونوں بھی والدِ مکرم کی طرح شہادت پائیں گے اور جنت کو سدھار جائیں گے۔”
یہ کہہ کر دونوں باہم بغل گیر ہو کر ایسے چلا چلا کر روئے کہ ان کی دردناک آواز سے اس حارث کم بخت کی آنکھ کھل گئی۔عورت سے پوچھا: “آج گھر میں کون ہے؟”
وہ نیک بخت اس کم بخت کے جاگنے سے ڈر گئی اور کچھ جواب نہ دیا۔ تب اس تیرہ دل نے خود اُٹھ کر چراغ جلایا، اور جہاں یہ دونوں یتیم بچے رو رہے تھے آیا، دیکھا کہ دونوں صاحبزادے دست و بغل ہو کر رو رہے ہیں۔
پوچھا: “تم کون ہو؟”
چونکہ بے چارے آفت کے مارے اس گھر کو پناہ کی جگہ سمجھے ہوئے تھے، بیساختہ بول اٹھے:
“ہم فرزندانِ مظلوم حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ہیں، اور باپ کی جدائی میں بکثرت مغموم ہیں۔”
اس بے رحم نے صاحبزادوں کے عنبرین گیسو، جن کی خوشبو سے فضا و فتنہ معطر تھا، پکڑے اور قسم قسم کی ایذارسانی کے ساتھ گھر سے باہر لایا اور فرات کے کنارے پر دونوں مظلوموں شہیدکرڈالا۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے فرزندوں کی شہادت ذی الحجہ ۶۰ ہجری میں واقع ہوئی، اور یہی تاریخ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے خروج کی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوفے کی گلیوں میں صرف حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور ان کے نونہالوں کا خون نہیں بہا، بلکہ وفا، شرم، غیرت اور حُرمتِ قرابتِ رسول ﷺ بھی کچلی گئی۔ یہ منظر نامہ محض ایک تاریخ کا سوانحی باب نہیں، بلکہ ہر اہلِ دل کے لیے آئینۂ عبرت اور ہر محبِ اہلِ بیت کے لیے سوزِ جگر کا ایک زخم ہے۔ جن کے خون سے کوفہ کی خاک رنگین ہوئی، ان کے لہو کی حرارت آج بھی ہر وفادار دل کو گرما دیتی ہے۔ جن کی سادگی، غربت اور تنہائی نے آسمان کو رُلا دیا، ان کی شہادت کی بازگشت آج بھی منبروں پر سنائی دیتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں قاری رک جائے، اور دل خود پکار اٹھے:
قتلِ مسلم ہے قیامت کی خبر شہرِ وفا،
کس کے در پر جائیں ہم لے کر تمنا اہلِ بیت؟
اب سوال یہ نہیں کہ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کو کس نے تنہا چھوڑا، بلکہ سوال یہ ہے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ وفا کے قافلے میں یا غفلت کی بھیڑ میں؟ اگلی قسط میں سیدناامام حسین علیہ السلام کی تیااری ، قید و بند، اور قربانی کی ایسی داستان پر روشنی ڈالیں گے، جسے پڑھ کر شاید دل تھم جائے، مگر آنکھ اشک بار ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
To Be Continued Soon
یہ معلوماتی اور روحانی بلاگ حضرت سرکار پیر ابو نعمان رضوی سیفی صاحب کی ترتیب و تحریر کا نتیجہ ہے، جو جذبۂ اخلاص کے ساتھ امتِ مسلمہ کی دینی و روحانی رہنمائی فرما رہے ہیں۔اگر یہ مضمون آپ کے لیے مفید اور بصیرت افزا ثابت ہوا ہو تو براہِ کرم اس پر اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں، اور اسے اپنے دوستوں، اہلِ خانہ، اور دیگر احباب کے ساتھ شیئر کریں تاکہ یہ پیغام زیادہ سے زیادہ قلوب تک پہنچ سکے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس بلاگ کی یہ سلسلہ وار فہرست جاری رکھی جائے، تو نیچے کمنٹ باکس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
Pingback: واقعہ کربلا کی مکمل تفصیل حصہ چہام - markazeislamurdu.com