واقعہ کربلا کی مکمل تفصیل پہلا حصہ
کبھی تاریخ میں ایسے لمحے بھی آتے ہیں جب حق و باطل کے درمیان فرق مٹنے لگتا ہے اور سوئے ہوئے ضمیر جاگ اٹھتے ہیں۔
وہ میدان جہاں ریت تپتی ہوئی تھی، پیاس شدید تھی، تعداد قلیل تھی، مگر حق بلند تھا۔۔۔کربلا ایسا ہی ایک لمحہ تھا۔ یہ صرف ایک جنگ نہیں تھی، بلکہ ایک سوال تھا، جو کل بھی انسان سے پوچھا گیا اور آج بھی ہر دل سے پوچھا جا رہا ہے۔۔
“جب تمہیں حق کا علم ہو جائے، تو کیا تم اس کے ساتھ کھڑے ہو گے؟ یا خاموش رہو گے؟”
کربلا ہمیں صرف یہ نہیں سکھاتی کہ ظلم کتنا سفاک ہوتا ہے، بلکہ یہ بھی سکھاتی ہے کہ حق پر قائم رہنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا، لیکن یہی راستہ اللہ کو پسند ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے نہ صرف اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، بلکہ آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ جب حق سامنے ہو اور باطل غالب، تو خاموشی بزدلی نہیں بلکہ خیانت ہے۔ یہ واقعہ ہمیں رُلاتا ضرور ہے، لیکن اس سے بڑھ کر ہمیں جھنجھوڑتا ہے۔
آئیے، اس بلاگ میں ہم کربلا کو صرف آنکھوں سے نہیں، ضمیر سے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کربلا آج بھی زندہ ہے
کربلا آج بھی زندہ ہے، کیونکہ یہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک دائمی پیغام ہے۔ یہ وہ صدا ہے جو وقت کی بہری دیواروں کو چیر کر آج بھی ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔ ظلم کے سامنے سر نہ جھکانا، باطل کو للکارنا، یہی کربلا ہے۔
افسوس کہ ہم نے اپنے اسلاف کی ان قیمتی تعلیمات کو فراموش کر دیا ہے۔ آج حق و باطل کا فرق ہمارے سامنے روز روشن کی طرح واضح ہے، لیکن ہم نے اپنی آنکھوں پر جدت کے پردے ڈال لیے ہیں، کانوں میں غفلت کی انگلیاں ٹھونس لی ہیں، اور اپنے ہاتھ خواہشات کی زنجیروں میں جکڑ لیے ہیں۔
کربلا زندہ ہے، کیونکہ جب بھی کوئی ظلم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، حسینؓ کا پیغام پھر سے گونجنے لگتا ہے۔ یہ جدوجہد ہر دور میں نئی شکل میں سامنے آتی ہے۔
ہمارے اسلاف کی تعلیمات: ایک جھلک
ہمارے اسلاف کی تعلیمات کا خلاصہ صداقت، صبر، عدل، ایثار، اور حق گوئی میں ہے۔ انہوں نے ہمیں سکھایا کہ باطل سے سمجھوتہ وقتی فائدہ ہو سکتا ہے، مگر ضمیر کا زوال دائمی خسارہ ہے۔ امام حسینؓ اور ان کے رفقا نے کربلا میں عملاً ثابت کر دیا کہ سر کٹانا قبول ہے، لیکن ظلم کے سامنے جھکنا ہرگز نہیں۔

ان کی تعلیمات صرف کتابوں میں نہیں بلکہ ان کے کردار، گفتار، اور اعمال میں نمایاں تھیں۔ یہی وہ روشنی ہے جس سے آج بھی اندھیروں کو دور کیا جا سکتا ہے۔۔۔اگر ہم چاہیں!
جدت کا دور اور مسلمان
مگر اُنہوں نے جدت کو اپنا دشمن نہیں بلکہ علم و حکمت کا ذریعہ بنایا۔ الزہراویؒ جیسے مسلم سائنسدانوں نے جب جراحی کے اصول وضع کیے، تو صفائی، تدبر، تجربہ اور انسان دوستی کو بنیاد بنایا،
جبکہ اُسی زمانے میں مغرب جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھاجہاں بیماریوں کا تعلق جنّات و آسیب سے جوڑا جاتا، اور سرجری نائیوں یا قصائیوں کے ہاتھوں کی جاتی تھی، جنہیں نہ درد کی پروا تھی نہ زندگی کی حرمت کا شعور۔ مسلمانوں نے نہ صرف سائنسی بنیادوں پر علم طب کو فروغ دیا بلکہ اسے ایک اخلاقی فریضہ سمجھا۔ آج کے مسلمانوں کے لیے یہی سبق ہے کہ ترقی اور جدت سے ڈرنے کی بجائے، اپنے اسلاف کی روشنی میں اُسے اختیار کریں،
مگر علم کو ایمان، تحقیق کو اخلاق، اور جدت کو شریعت کی رہنمائی میں رکھ کر۔ اسی میں ہماری کھوئی ہوئی عظمت کی بازیافت ہے۔
یزید کی خلافت اور امام حسینؓ کا انکار
٭یزید کی سلطنت
حضرت معاویہؓ کی وفات 60 ہجری میں ہوئی، جس کے بعد اُن کے بیٹے یزید بن معاویہ نے خلافت کا منصب سنبھالا۔ خلافت کا یہ تبادلہ اسلامی طرزِ خلافت سے ایک سیاسی وراثت کی شکل اختیار کر چکا تھا، جو کہ اسلامی نظامِ حکومت کے سراسر خلاف تھا۔ یزید کی شخصیت اور طرزِ زندگی اسلامی تعلیمات سے متضاد تھی۔ وہ عیش و عشرت، شراب نوشی، موسیقی، ظلم و جبر، اور فحاشی جیسے اعمال میں ملوث تھا، جس کی گواہی اُس کے دور کے کئی مؤرخین نے دی ہے۔ اس کے خلاف کھڑا ہونا ہر باایمان شخص کی دینی ذمہ داری تھی، مگر چونکہ یزید کو خلافت کا سیاسی جواز حاصل تھا، اس لیے بہت سے لوگ خاموش رہے۔۔۔

جب یزید نے خلافت سنبھالی اور تختِ سلطنت پر بیٹھ کر حکمران بنا، تو اس وقت تمام اہلِ شام نے اس سے بیعت کی۔ یزید نے تختِ حکومت پر بیٹھتے ہی ہر اقلیم و ولایت میں اپنی بیعت کے لیے تمام امراء اور اعیان کو خطوط لکھے۔
٭یزید کا حاکمِ مدینہ کو خط
چنانچہ ایک خط “ولید بن عتبہ بن ابی سفیان” کو، جو مدینہ منورہ کا حاکم تھا، اس مضمون کے ساتھ لکھا:
“روئے زمین کے خلیفہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ عنہ) نے اس عالمِ فانی کو چھوڑا اور میں بجائے اُن کے حاکم مقرر ہوا ہوں۔ تمام امورِ سلطنت میرے قبضۂ اقتدار اور دائرۂ تصرف میں ہیں۔ تمہیں چاہیے کہ اہلِ مدینہ سے عموماً اور حضرت سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ)، حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ)، حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر (رضی اللہ عنہ) وغیرہ سے خصوصاً میری بیعت لو۔ اگر یہ لوگ بیعت پر راضی نہ ہوں اور بجائے اقرار کے انکار کریں تو فوراً انہیں طلب کر کے سر کاٹ کر میرے دربار میں بھیج دو۔”
اس زمانے میں حضرت سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) اکثر اوقات اپنے بزرگوار نانا، رسولِ مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روضۂ مبارک پر عبادتِ الٰہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔
٭امام حسینؓ کا انکار
ولید نے امام حسینؓ کو بلایا، لیکن آپؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا۔ اس انکار کی بنیاد صرف ایک شخص نہیں بلکہ پورے باطل نظام کی مخالفت تھی۔ امام حسینؓ نے فرمایا: “میں یزید جیسے فاسق و فاجر کی بیعت نہیں کر سکتا۔” یہی انکار کربلا کی بنیاد بنا۔
کربلا کی بنیاد بنا
٭خوابِ نبویؐ اور شوقِ شہادت
حضرت سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) بدستور سابق اپنے جدِّ بزرگوار کے روضۂ مبارک پر تشریف لے گئے۔ رسولِ مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں دیکھا کہ حضرت سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا سر زانویِ مبارک پر رکھے ہوئے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشکبار آنکھوں سے فرماتے ہیں۔
“اے میرے دل کے ٹکڑے اور آنکھوں کی ٹھنڈک! دشمن تیری ایذا رسانی پر آمادہ ہے۔ عنقریب تُو میدانِ کربلا میں بے یار و مددگار اپنا گلا کٹائے گا اور ظالموں کے ظلم بھرے ہاتھوں سے شہید ہو جائے گا۔ میرے فرزند! یہ لوگ یومِ قیامت میری شفاعت سے محروم رہیں گے۔”
حضرت سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو یہ خواب دیکھتے ہی شوقِ شہادت دامن گیر ہوا، اور رضائے خالق پر دل کو مضبوط کر کے “رضا بہ قضا” کا نعرہ مارا۔
٭یزید کے خط کا مضمون
ترجمہ تاریخ طبری میں مذکور ہے کہ یزید کے خط کا مضمون یہ تھا:
“حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ)، جو بندگانِ خدا میں سے ایک خاص بندہ تھا، اس نے وفات پائی۔ اب میں اپنی بیعت و انقیاد سب لوگوں سے چاہتا ہوں۔ پس لوگوں کو چاہیے کہ بیعت میں جلدی کریں اور تاخیر کو جائز نہ رکھیں۔ حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے ہر چند کہ ان چار شخصوں سے بیعت لینی چاہی، مگر انہوں نے انکار کیا۔ اب جس طرح ہو، اِن سے بیعت لینی چاہیے۔”
جب ولید بن عتبہ کے پاس یزید کا خط پہنچا، تو اس نے مروان کو بلا کر اس بارے میں مشورہ کیا۔ مروان نے کہا:
“اے ولید! تم امیرالمؤمنین یزید بن معاویہ کی اطاعت ہاتھ سے نہ دو، اور ان چاروں حضرات کو طلب کر کے اس کا حکم سنا۔ اگر وہ بیعت کر لیں، فبہا، اور اگر تاخیر کریں، تو چاروں کے سر اتار کر اس کے پاس بھیج دو۔”
ولید نے جواب دیا:
“سبحان اللہ! اے مروان! حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا)، حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ)، حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)، اور حضرت زبیر (رضی اللہ عنہ) کے فرزندوں کے حق میں اس قسم کی بات نہ کہو۔ ان اولوالعزم اور افاضل کی تصویروں کو مٹانا مناسب نہیں۔”
آخرکار، ولید نے حضرت سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو بلایا۔ چونکہ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو پہلے ہی سے اس امر کا علم ہو چکا تھا، آپ نے خیال کیا کہ نہ معلوم ولید نے مجھے کس کام کے لیے بلایا ہے۔ آپ پچاس مسلح جوانوں کو ساتھ لے گئے،
اور سب کو دروازے پر کھڑا کر کے فرمایا:
“”تم یہیں ٹھہرو اور میری آواز پر غور سے کان رکھو۔ جب میں تمہیں آواز دوں تو فوراً اندر آ جانا
یہ کہہ کر آپ ولید کے پاس گئے۔ وہ نیک مرد آپ کو دیکھتے ہی تعظیمًا کھڑا ہو گیا، اور یزید کا خط پڑھ کر سنایا۔
حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:
“یہ خط چار آدمیوں کے نام پر ہے۔ ان سب کو بلاؤ تاکہ ہم سب اکٹھے ہو کر بیعت کریں۔”
ولید نے کہا:
“بہتر۔”
حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) وہاں سے کھڑے ہو گئے۔ مروان نے کہا:
“اے ولید! ابنِ حسین کو اسی مجلس میں قتل کر ڈال، اور جانے کی فرصت نہ دے۔”
امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے یہ سن کر فرمایا:
“اے مروان! تُو مجھے قتل نہیں کر سکتا۔ اگر تیری ہمت اور جوانمردی مجھے قتل کرنے پر آمادہ کرتی ہے،تو بسم اللہ، حاضر ہوں۔ شاید تُو نے بنی ہاشم کی تلوار کی چمک نہیں دیکھی!”
اور اسی رات، حضرت عبداللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ مکہ مکرمہ تشریف لے آئے۔۔۔
لیکن حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)، جو رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواسے، حضرت علی (رضی اللہ عنہ) و حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے فرزند، اور اہلِ بیت کے چشم و چراغ تھے،وہ باطل کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ان کا انکار صرف ایک شخص کی بیعت کا انکار نہ تھا،بلکہ یہ انکار باطل نظام کے خلاف بغاوت،اور دینِ اسلام کی اصل روح کی حفاظت کا اعلان تھا۔
امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا تھا:
“میں یزید جیسے فاسق و فاجر شخص کی بیعت نہیں کر سکتا۔”
یہی انکار دراصل کربلا کی بنیاد بنا، جہاں حق و باطل کا ٹکراؤ ہوا۔
مکہ کی روانگی اور کوفیوں کے خطوط
امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کے بعد عبداللہ بن زبیرؓ کے ہمراہ 28 رجب کو مدینہ سے مکہ کی طرف روانگی اختیار کی۔ مکہ پہنچنے کے بعد آپؓ کو کوفہ سے بہت سے خطوط موصول ہوئے جن میں آپ سے کوفہ آنے کی التجا کی گئی۔
امام حسینؓ نے اپنے چچازاد حضرت مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے سکیں۔
To Be Continued Soon
کربلا صرف ایک معرکہ نہیں تھا، بلکہ یہ ہر دور کے انسان کے لیے ایک آئینہ ہے۔ امام حسینؓ کا پیغام آج بھی زندہ ہے۔ جب بھی ظلم کے خلاف کوئی کھڑا ہوتا ہے، حسینؓ کا نام زندہ ہو جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف کربلا کو یاد کریں بلکہ اس سے سبق حاصل کریں۔ حق کے لیے کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کریں، کیونکہ یہی حسینؓ کا پیغام ہے۔
یہ معلوماتی اور روحانی بلاگ حضرت سرکار پیر ابو نعمان رضوی سیفی صاحب کی ترتیب و تحریر کا نتیجہ ہے، جو جذبۂ اخلاص کے ساتھ امتِ مسلمہ کی دینی و روحانی رہنمائی فرما رہے ہیں۔اگر یہ مضمون آپ کے لیے مفید اور بصیرت افزا ثابت ہوا ہو تو براہِ کرم اس پر اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں، اور اسے اپنے دوستوں، اہلِ خانہ، اور دیگر احباب کے ساتھ شیئر کریں تاکہ یہ پیغام زیادہ سے زیادہ قلوب تک پہنچ سکے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس بلاگ کی یہ سلسلہ وار فہرست جاری رکھی جائے، تو نیچے کمنٹ باکس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔