واقعہ کربلا کی مکمل تفصیل حصہ چہام
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ، امام حسین رضی اللہ عنہ کے سفیر بن کر کوفہ پہنچے تو ابتدا میں لوگوں نے بڑی گرمجوشی سے بیعت کی، مگر جیسے ہی ابن زیاد کا ظلم بڑھا، سب نے ساتھ چھوڑ دیا۔ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ تنہا رہ گئے، حضرت ہانیؓ کے گھر پناہ لی، مگر دونوں گرفتار ہو کر شہید کر دیے گئے۔ مسلمؓ کے دو معصوم یتیم بیٹے بھی دربدر ہو کر ظالمانہ طریقے سے مارے گئے۔ یہ واقعہ وفا، قربانی اور حق پر ڈٹ جانے کی ایک عظیم مثال ہے، جو آج بھی دلوں کو ہلا دیتا ہے
سیدنا امام حسین علیہ سلام کی تیاری
جب امام عالی مقام نے کوفے جانے کی تیاری شروع کی تو یہ خبر سارے شہر مکہ میں گشت کرنے لگی اور گوشے گوشے سے رنج و غم کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔ مکہ معظمہ میں جتنے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی تھے سب جمع ہو کر امام عالی مقام کی خدمت اقدس میں آنے شروع ہوئے ۔ جن میں عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ ، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ، ابن زبیررضی اللہ عنہ ، عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ شامل ہیں۔ تمام صحابہ کرام نے امام عالی مقام کی خدمت میں نہایت ادب اور بڑی عاجزی و منت سماجت سے عرض کی کہ حضور کے شہرکو چھوڑ کر نہ جائیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور حجاز ہی میں رہ کر حصول خلافت کی کوشش کریں ہم حضور کی بیعت میں داخل ہو کر حضور کی ہر قسم کی مدد کریں گے اور ہمیشہ حضور کے فرمانبردار رہیں گے ۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے خدمت میں حاضر ہو کر امام عالی مقام کو سینے سے لگا لیا اور رو رو کر عرض کیا کہ اے آئینہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اے مظہر حبیب کبریا خدا کےلیے آپ کوفے نہ جائیں اور کوفے جانے کا ارادہ بالکل ترک کر دیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی رو رو کر گذارش کی کہ جناب آپ کو فے جانے کا ہرگز نام نہ لیں۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی خدمت میں حاضر ہوئے اور کوفے جانے سے منع کیا۔ الغرض تمام صحابہ نے امام عالی مقام کو کوفے جانے سے بے حد رو کا اور کوفیوں کی پہلی بے وفائی جو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی تھی آپ کو یاد دلائی۔ پھر دوبارہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ آپ فرزند رسول ہیں، جگر گوشہ بتول ہیں، مولا علی کے گلشن کے خوشبودار پھول ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ سفر دنیا کے لیے نہیں فرما رہے لیکن بظاہر اس میں دنیا کے تمام خواہشات تمام مقاصد نظر آتے ہیں۔ ابن عمررضی اللہ عنہ نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال پیش کر کے فرمایا کہ آپ ترک وطن ہی چاہتے ہیں تو بجائے کوفے کے آپ بصرے تشریف لے جائیں کیونکہ وہاں حضور کے بہت سے صحابی موجود ہیں وہ حضور کی ہر طرح کی مدد کریں گے آپ نے یہ تمام با تین سن کر فرمایا:
“امام پاک نے سن کر کہا یہ کیفیت ساری
یہ سب سچ ہے مگر ہے اور ہی کچھ مرضی ہے باری”
“وہ پیشین گوئیاں کی ہیں جو سلطان رسالت نے
سنا ہے جن کو اکثر اس طلبگار شہادت نے”
“کہا ارشاد فرمایا ہے مرے جد امجد نے
حبيب رب اکبر رحمت عالم محمد (سے) نے”
“حرم کی ایک مینڈھے کے سبب بے حرمتی ہوگی
وہ مینڈھا خود بنوں میں یہ مری کج روی ہوگی”
“یہ سن کر حضرت ابن عمر بے ساختہ روئے
صحابی جتنے تھے موجود وہ سب برملا روئے”
“جدھر دیکھو اُدھر کہرام تھا سکے کی گلیوں میں
اداسی چھا گئی تھی گلشن وحدت کی کلیوں میں”
“یہ باتیں سن کے عبداللہ ابن عباس نے رو کر
کہا جاؤ خدا حافظ تمہارا سبط پیغمبر”
“قضان ہر ادا تصویر احکام مثبت ہے۔
شهادت بر ملا تفسیر احکام مشیت ہے۔”
یہ اشعار امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی پیشین گوئی، ان کی تسلیم و رضا، اور اس عظیم قربانی کی روحانی معنویت کو بیان کرتے ہیں۔ امامؑ فرماتے ہیں کہ اگرچہ لوگوں کی باتیں درست ہیں، لیکن اللہ کی مشیت کچھ اور ہی ہے، اور جو کچھ ہونے والا ہے، وہ دراصل اللہ کے نبی ﷺ کی پیشین گوئیوں کا ظہور ہے۔ امامؑ اپنی شہادت کو ایک مینڈھے (قربانی کے جانور) سے تعبیر کرتے ہیں، جو دینِ اسلام کی بقا کے لیے خود کو قربان کرتا ہے۔ ان باتوں کو سن کر جلیل القدر صحابہ کرام جیسے حضرت ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ پر رقت طاری ہو جاتی ہے، اور مدینہ کی گلیوں میں سوگ کی کیفیت چھا جاتی ہے۔ آخر میں یہ واضح کیا جاتا ہے کہ امام حسینؑ کے ہر عمل میں اللہ کے احکام کی عملی تفسیر جھلکتی ہے، اور ان کی شہادت اللہ کی مشیت کا برملا اظہار ہے، جو رہتی دنیا تک دینِ حق کی سربلندی کی علامت رہے گی۔
ابن زیاد بد نہاد کا جاسوسی پلان
ادھر تو امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) کوفے جانے کی تیاری کر رہے ہیں اُدھر ابن زیاد نے کوفے سے لے کر مکے تک جاسوسی کے جال بچھا رکھےہیں۔ صحابی رسول رضی اللہ اتعالی عنہ کوفے میں موجود ہیں وہ ضرور مسلم رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ )تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ اگر ان کوحضرت مسلم رضی اللہ عنہ کی شہادت کا علم ہو گیا تو ان کا کوفے آنا غیر ممکن ہو جائے گا۔ چنانچہ زید ابن ارقم لیلی رضی اللہ عنہ تمام حالات مسلم رضی اللہ عنہ کے اور ان کے فرزندوں کی شہادت کے قلم بند کر کے قیس ابن اشہر رضی اللہ عنہ کو مکے شریف روانہ کر دیا۔ ادھر عبداللہ ابن زیاد کے جاسوس تمام مسافروں اور نامہ بروں کی تلاشیاں لے کر چھوڑتے۔ یکا یک قیس ابن اشہررضی اللہ عنہ کو بکر ابن عمران تمیمی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر قیس ابن اشہر کو پکڑ لیتا ہے اور کوفے لے جا کر ابن زیاد کے سامنے پیش کر دیتا ہے اور جو خط ان کے پاس سے برآمد ہوا تھا وہ بھی ابن زیاد کے سامنے رکھ دیتا ہے۔این زیاد نےقیس کو قہر کی نظر سے دیکھا اور کہنے لگا کہ اسے قیس اگر اپنی سلامتی چاہتا ہے تو کوٹھے کی چھت پر چڑھ کر حسین ابن علی پر تبرا کر ۔ قیس ابن اشہر اس ظالم کے کہنے سے کوٹھے کی چھت پرچڑھے اور تمام لوگوں سے اس طرح مخاطب ہوئے۔

حسین ابن علی ہیں فاطمہ کے راحتِ جاں ہیں
علی شیر خدا خیبر شکن ہیں شاہ مرداں ہیں
حسین ابن علی محبوب خالق کے پیارے ہیں جو ہیں
ایمان والے اُن کی وہ آنکھوں کے تارے ہیں
حسین ابن علی کی خود خدا تعریف کرتا ہے ۔
یہاں قرآن اُن کی جابجاتوصیف ہیں۔
رسول (صلی اللہ علیہ و الیہ وسلم) نے ان کو بڑے نازوں سے پالا ہے
بُرا اُن کو کہے گا وہی جس کا قلب کالا ہے
حسین ابن علی ہیں باخدا سردار اُمت کے
سر جنت یہی کہلائیں گے مختار جنت کے
خدا کا دوست ہے جو دوست ہے سبط پیمبر کا
وہ دشمن ہے خدا کا ہے عدو جو این حیدر کا
خلاف حکم عامل نے سنے جس وقت یہ فقرے
غضب آلودہ ہو کر قیس کو گروا دیا چھت سے
جناب قیس نے جو ابن مرجانا پہ لعنت کی
خدا نے اُس کے بدلے دی اُس دولت شہادت کی
یہ اشعار حضرت امام حسین ابن علی علیہ السلام کی عظمت و شان کو بیان کرتے ہیں کہ وہ حضرت فاطمہ الزہراؓ کے دل کا سکون اور حضرت علیؓ جیسے شیرِ خدا کے فرزند ہیں، جو نہ صرف اہلِ بیت کے چراغ بلکہ اہلِ ایمان کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ ان کی تعریف خود اللہ تعالیٰ کرتا ہے اور قرآن مجید میں بھی جا بجا ان کی فضیلت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو بے حد محبت و شفقت سے پالا، اور جو شخص ان سے بغض رکھے، اس کے دل کی سیاہی اس کے کردار کی گواہی ہے۔ امام حسینؑ اللہ والے، امت کے حقیقی سردار اور جنت کے مختار کہلائیں گے۔ جو ان سے محبت رکھے، وہ اللہ کا محبوب ہے، اور جو ان سے دشمنی رکھے، وہ درحقیقت خدا کا دشمن ہے۔ اشعار کے آخر میں واقعۂ شہادت کی ایک جھلک بیان کی گئی ہے کہ جب حضرت قیسؓ نے ظالم ابن زیاد کے خلاف کلمۂ حق بلند کیا تو اسے قہر و غضب میں چھت سے گرا دیا گیا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس حق گوئی کے بدلے میں اسے شہادت جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی۔
امام عالی مقام کے سفر کربلا میں ہمراہ
حضرت عباس ابن علی رضی اللہ عنہ ، حضرت جعفر ابن علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ ابن علی رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان ابن علی رضی اللہ عنہ، حضرت محمد ابن علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر ابن علیرضی اللہ عنہ، حضرت علی ابن حسین رضی اللہ عنہ، حضرت عبد الله ابن حسین رضی اللہ عنہ ، حضرت زین العابدین ابن حسین رضی اللہ عنہ ، حضرت علی اکبر ابن حسین رضی اللہ عنہ، حضرت علی اصغر ابن حسین رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر این حسن رضی اللہ عنہ، حضرت قاسم ابن حسن رضی اللہ عنہ ، حضرت عبدالله ابن حسن رضی اللہ عنہ،حضرت عون بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ، حضرت زینب کے فرزند حضرت محمد رضی اللہ عنہ، حضرت جعفر ابن عقیل رضی اللہ عنہ حضرت ابن مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ۔ یہ تمام حضرات تو اہل بیت مصطفیٰ تھے۔ ان کے علاوہ اکتالیس حضرات اور بھی امام عالی مقام کے ہمراہ تھے۔ چنانچہ جب امام عالی مقام مکے سے کوفے کی جانب سفر کرنے والے تھے تو ذی الحجہ کی 8 تاریخ 60 ھ مطابق و تمبر 681 عیسوی تھی ۔ تمام مکے شہر پر اداسی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ کعبے کا آخری طواف امام حق غلاف کعبہ کو پکڑ کر زار و قطار رو رہے ہیں۔ سورج اپنے رخ سے رات کی تاریکی کا نقاب التاب الٹتا ہے۔
سیدنا امام حسین علیہالسلام کا مکہ مکرمہ سے رخصت ہونا
امامِ عالی مقام علیہ السلام مکۂ معظمہ سے رخصت ہو رہے ہیں۔ تمام شہر میں کہرام مچا ہوا ہے۔ شیدایانِ اہلِ بیت کے دلوں پر جدائی کے غم کی بجلیاں ٹوٹ رہی ہیں، فرقت کے بادل گرج رہے ہیں۔امامِ عالی مقام علیہ السلام کعبے کا غلاف پکڑ کر فرما رہے ہیں: “اے غلافِ کعبہ! آج تیرا دیدار آخری ہے۔” حجرِ اسود کو بار بار بوسہ دیتے ہیں، حطیم کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ جب قافلہ مکۂ معظمہ سے نکلا، تو آپ کعبے کو بار بار مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں، اور طوافِ بیت اللہ کا تصور نگاہوں کے سامنے منڈلا رہا ہے۔سنگِ اسود کی کشش دل کو تڑپا رہی ہے، آبِ زمزم کا شیریں ذائقہ بار بار زبانِ پاک پر محسوس ہو رہا ہے۔ صفا و مروہ کے نظارے دل کو بے قرار کیے دیتے ہیں۔ منیٰ کی یادیں جگر کی دھجیاں اڑا رہی ہیں، مزدلفہ کے مناظر قلب کو بے چین کر رہے ہیں۔الغرض، حسرت و یاس کے ایسے عالم میں جب قافلہ بطنِ رِملہ سے آگے بڑھا، تو عبداللہ بن مطیع—جو کہ عراق سے آ رہے تھے—نے سنا کہ امامِ عالی مقام کوفہ تشریف لے جا رہے ہیں، تو وہ آپ کی راہ میں آ کر کھڑے ہو گئے۔
جب امامِ حق وہاں پہنچے، تو عبداللہ بن مطیع نے عرض کیا: “آپ حرم سے باہر کیوں تشریف لائے ہیں؟” امامِ عالی مقام نے ارشاد فرمایا: “مجھے کوفہ والوں نے بلایا ہے۔”
یہ سن کر عبداللہ نے ایک آہِ سرد بھری اور عرض کیا: “آپ کوفہ کا قصد نہ فرمائیں، وہاں آپ یقیناً شہید کر دیے جائیں گے۔”
امامِ عالی مقام نے فرمایا: “اگر یہ مرضیِ رب کے خلاف ہوگا تو میں نہیں جاؤں گا، اور اگر یہ موافقِ مرضیِ رب ہے، تو ضرور جاؤں گا۔”
عبداللہ نے کہا: “یہ سب کچھ خدا کی مشیت سے ہوگا اور اس کی رضا کے مطابق ہوگا۔”
امامِ حق نے فرمایا: “تو میں کیوں مرضیِ رب کے خلاف ارادہ کروں، جبکہ جو خدا نے لکھ دیا ہے، وہی ہو کر رہے گا۔ نہ اس میں زیادتی ہوگی، نہ کمی۔”
اسی اثنا میں عمرو بن عبدالرحمٰن، جو کوفہ کی طرف سے آ رہے تھے، امامِ عالی مقام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: “کیا آپ کوفہ جا رہے ہیں؟ مجھے خوف ہے کہ جن لوگوں نے آپ کو بلایا ہے اور مدد کا وعدہ کیا ہے، وہی آپ کے دشمن بن کر آپ سے جنگ کریں گے۔”
آپ نے فرمایا: “سب کچھ خدا کی مشیت سے ہوگا، یا اس کے خلاف؟”
عمرو بن عبدالرحمٰن نے عرض کیا: “یہ سب کچھ تحتِ مشیتِ خداوندی ہوگا، اور اس کے خلاف ذرہ برابر بھی نہ ہوگا۔”
امامِ عالی مقام نے فرمایا: “تو پھر ایک مسلمان کا کیا فرض ہے؟”
عمرو نے کہا: “قضا و قدر پر راضی برضا رہنا۔”
یہ سن کر امامِ حق نے فرمایا: “پھر میں کیا کر سکتا ہوں؟ میں خود نہیں جا رہا، بلکہ مشیتِ خداوندی مجھے وہاں لے جا رہی ہے۔ اور جو خبر میرے جدِّ امجد ﷺ نے ہمیں دی ہے، کیا وہ جھوٹی ہو سکتی ہے؟”
عمرو بن عبدالرحمٰن نے کہا: “جو حضور ﷺ نے فرمایا ہے، وہ رب کی وحی سے فرمایا ہے۔”
(ابنِ اثیر، جلد ۴) امامِ حق نے فرمایا: “تو پھر خداحافظ!”
جب کاروانِ اہلِ بیتِ مصطفیٰ ﷺ مکہ کی حدود سے گزر کر زرود کے مقام پر پہنچا، تو وہاں زہیر بن قیس—جو حجِ بیت اللہ سے فارغ ہو کر خیمہ زن تھے اور کوفہ جا رہے تھے—موجود تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ سرکارِ دو عالم ﷺ کے خانوادے والے شوقِ شہادت میں سفر کر رہے ہیں، تو زہیر بن قیس فوراً امامِ عالی مقام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساتھ چلنے کی اجازت طلب کی۔ امامِ حق نے انہیں اجازت عطا فرما دی۔زہیر کے ہمراہ اُن کی اہلیہ بھی تھیں، جنہوں نے شوقِ شہادت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ اس پر زہیر پاک نے فوراً اُسے طلاق دے دی اور خود امامِ عالی مقام کے ہمراہ ہو لیے۔کچھ دور چلنے کے بعد ایک قافلہ ملا، جس کے پاس بہت سا مال و زر تھا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ قافلہ یزید کے لیے مال و زر بطورِ تحفہ لے جا رہا ہے، جسے حکومتی کارندوں نے روانہ کیا ہے۔ امامِ عالی مقام نے اس قافلے کو ضبط کر لیا، اور تمام مال و اسباب کو بیت المال میں جمع کرا دیا، پھر اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔اب شام ہو چکی تھی۔ امامِ عالی مقام نے دوسری منزل پر قیام فرمایا۔ اسی اثنا میں مشہور شاعر فرزدق سے ملاقات ہوئی۔ امامِ عالی مقام نے اُس سے حالاتِ وقت دریافت فرمائے۔امام عالی مقام کو دوسری منزل ہی کوفے کے تمام حالات کا بظاہر بھی علم ہو چکا تھا۔باطنی علم تو آپ کو پہلے سے ہی حاصل تھا اور اس کا بھی پتہ چل گیا تھا کہ کوفیوں کی زبانیں تو ہمارے ساتھ ہیں مگر تلواریں زید کے ساتھ ہیں اور کوفے کے آنے جانے والے آپ کو کوفے جانے کے ارادے سے روکنے کی ہر ممکن کوش کر رہے تھے مگر آپ قضا و قدر پر راضی تھے۔
امام عالی مقام علیہ السلام جس منزل کی طرف نگاہ نورانی اٹھا کر دیکھتے جابجا فوجوں کےپہرے لگے ہوئے نظر آتے ۔ کوئی منزل کوئی راستہ ایسا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جس پر یزیدی فوج کے دستے موجود نہ ہوں۔ یہ ہر منزل پر نوجوں کا موجود ہونا یہ صاف ظاہر کر رہا تھا کہ حالات بہت ہی خطرناک ہیں اور یزید واقعی اہل بیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خون کا پیاسا ہے۔ ان حالات سے اُن لوگوں کو شرمانا چاہیے جو کہ امام عالی مقام کے سفر کر بلا پر طرح طرح کی نا جائز باتیں منہ سے نکالتے ۔ اگر ما ام عالی مقام کو اگر کسی قسم کا اپنی جان یا دنیا کا خیال ہوتا تو ان خطر ناک آثار کو دیکھتے ہی آپ واپس آجاتے مگر وہاں رضائے الہی کے لیے دین کو بری رسموں سے بچانے کے لیے یہ سفر اختیار کیا تھا۔ ابھی چوتھی منزل سے اہلبیت کا قافلہ آگے بھی نہ بڑھا تھا کہ وہاں حضرت عبداللہ ابن مطیع امام عالی مقام علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوئے اور آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے امام حق سے اس طرح عرض کرنے لگے۔
خدا کے واسطے کوفے کے ارادے کو ترک کر دیں، کیونکہ وہ فتنوں اور سازشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ہر منزل خطرے سے بھری ہوئی ہے، اور وہاں ہر سمت فساد کی آندھیاں چل رہی ہیں۔ بنو اُمیہ کے تلوار بردار یزیدی کوفی، بنی ہاشم کے خون کی پیاسے بنے بیٹھے ہیں، اور ہر گھڑی آپ کی شہادت کے منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں۔ یزید زبردستی خلیفہ بنا دیا گیا ہے۔ان تمام خبردار کرنے والی باتوں کو سن کر امام عالی مقام نے خاموشی سے ایک آہ بھری، لبوں پر شکوہ نہیں آیا، بلکہ صبر اور رضا کا پیکر بنے رہے۔ یہ سکوت اس بات کی دلیل تھا کہ امام حسین علیہ السلام اللہ کی مشیت پر راضی ہیں، اور شہادت کو تقدیرِ الٰہی سمجھ کر اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ابھی سفر جاری ہے
میرے لیے یہ سفر ایک پیغام ہے: کبھی کبھی سچائی کا راستہ تنہا ہوتا ہے، مگر وہی راستہ تاریخ بدلتا ہے۔ امام علیہ السلام نےدکھایا کہ قربانی صرف جسم کی نہیں، نظریے کی بقا کے لیے ہوتی ہے۔
To Be Continued Soon
یہ معلوماتی اور روحانی بلاگ حضرت سرکار پیر ابو نعمان رضوی سیفی صاحب کی ترتیب و تحریر کا نتیجہ ہے، جو جذبۂ اخلاص کے ساتھ امتِ مسلمہ کی دینی و روحانی رہنمائی فرما رہے ہیں۔اگر یہ مضمون آپ کے لیے مفید اور بصیرت افزا ثابت ہوا ہو تو براہِ کرم اس پر اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں، اور اسے اپنے دوستوں، اہلِ خانہ، اور دیگر احباب کے ساتھ شیئر کریں تاکہ یہ پیغام زیادہ سے زیادہ قلوب تک پہنچ سکے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس بلاگ کی یہ سلسلہ وار فہرست جاری رکھی جائے، تو نیچے کمنٹ باکس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
Pingback: واقعہ کربلا کی مکمل تفصیل حصہ پنجم - markazeislamurdu.com