واقعہ کربلا کی مکمل تفصیل حصہ پنجم
جب امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے کوفہ کا قصد کیا تو جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہ نے اشکوں کے ساتھ منع کیا، مگر امامؑ نے فرمایا: “یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔” ابن زیاد نے خطوط کی خبریں چھپائیں، لیکن حضرت قیس رضی اللہ عنہ نے حق کا پیغام پہنچاتے ہوئے جان دے دی۔ امامؑ نے بیت اللہ سے الوداعی طواف کیا اور اہلِ بیتؑ کے قافلے کے ساتھ کربلا کی سمت روانہ ہوئے۔ یہ سفر کسی دنیاوی اقتدار کے لیے نہیں، بلکہ صرف اللہ کی رضا، دین کی بقا، اور باطل کے خلاف ایک ابدی صدائے حق تھا۔ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ قافلہ صرف سفرِ کربلا نہیں، بلکہ قربانی، وفا، اور عشقِ الٰہی کی معراج تھا۔
امام مسلم اور ان کےصاحبزادوں کی شہادت
پانچویں منزل پر جب امام عالی مقام علیہ السلام پہنچے تو وہاں ایک نامہ بر آیا اور اس نے آکر امام مسلم رضی اللہ عنہ اور ان کے فرزندوں کی شہادت کی خبر امام عالی مقام کو دی اور تمام کوفے والوں کی بے وفائی و بے مروتی کا خلاصہ بیان کیا۔ تمام قافلے میں امام مسلم رضی اللہ عنہ اور ان کے فرزندوں کی شہادت کی خبر سن کر ایک کہرام مچ گیا اور تمام مسلم کے بھائی اور بھتیجے رو کر امام عالی مقام علیہ السلام سے کہنے لگے۔

ہیں بعد شہید ملت حق لطف جینے میں
ہے جوش انتقام خون مسلم اپنے سینے میں
امام محترم نے قافلے والوں سے فرمایا ہے
دل غمگیں بہت جب سے خبر یہ نامہ بر لایا
عزیز و اقربا احباب کو مغموم پاتا ہوں
خود اپنے دل میں درد فرقت مرحوم پاتا ہوں
طبیعت بے سکوں اور مشتعل ہے قتل مسلم سے
مجھے لینا ہے بدلا خون کا عبید اللہ ظالم سے
مگر اے سرخروشان وفا میں تم سے کہتا ہوں
اٹھاؤ تم نہ اس غم کو جوغم میں دل پہ سہتا ہوں
تمہیں اب واپسی کی مری جانب سے اجازت ہے
چلا جائے خوشی سے جس کو جانے کی ضرورت ہے
مرے ہمراہ رہنے میں ہے خطرہ جان وعزت کا
یقیناً عزم کونه پیش خیمہ ہے ہلاکت کا
کہا ہر سرفروشان محبت نے شہر والا
فنا ہونا تمہارے ساتھ ہے اک منسب عالی
اکیلا چھوڑ کر گر آپ کو ہم لوٹ جائیں گے
خدا و مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حشر میں کیا منہ دکھائیں گے
شہادت فی الحقیقت معرکہ سر کر کے ملتی ہے
حیات جاوداں راہ خدا میں مر کے ملتی ہے
امام عالی مقام نے تمام جانثاروں کی جذبہ شہادت اور جذبئہ جانثاری کی گفتگو سن کر آگے کو کوچ فرمایا اور چھٹی منزل پر پہنچ کر قیام پذیر ہوئے یہاں کونے کی سرحد ملتی تھی اور اس مقام کا نام زبالہ تھا امام عالی مقام اپنے قافلے کو وہیں بھڑایا یہاں پر آپ کو کوفیوں کی تمام نداریوں اور تمام مکاریوں کا علم ہو چکا تھا۔ ہر طرف ظلم و ستم کی تاریکی نظر آ رہی تھی اور یزیدی اور کوفیوں کے ارادے آپ پر آفتاب سے بڑھ کر روشن ہو گئے تھے۔ سلطان کربلا نے یہاں بھی اپنے تمام رفیقوں سے ارشاد فرمایا کہ میرے سبب تم لوگ مصیبتوں میں کیوں گرفتار ہوتے ہو۔ میں با خوشی تم سب کو لوٹ جانے کی اجازت دیتا ہوں اپنے اپنے گھر چلے جاؤ ۔ امام عالی مقام کا یہ ارشاد سن کر عقیل کے فرزندوں نے دست بستہ ادب سے عرض کی کہ سرکار ہم ایسا ہرگز نہ کریں گے اور جان و مال سب حضور کے قدموں پر قربان کر دیں گے۔ مسلم بن عوسجہ نے نہایت جذبہ کے انداز میں سرکار سے عرض کیا کہ ہم حضور پر جان فدا کرنے کے لیے دشمنوں سے نہتے بھی لڑیں گے اور حضور پر اپنی جان نثار کریں گے۔ سعد بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے کاش اگر مجھے ستر مرتبہ قتل کریں اور ہر مرتبہ مری لاش کو جلا کر خاک کر دیں تب بھی میں حضور کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ کاش مرے تمام اہل و عیال آپ پر قربان ہو جاتے اور خدا آپ کو بچا لیتا۔
(طبری جلد 7 صفحہ 316 ، کامل ابن اثیر جلد 4 صفحہ 28)
اور اس مقام پر امام عالی مقام عالین کی خدمت میں طرح ابن عبدالعزیز حاضر ہوتے ہیں اور امام بر حق سے عرض کرتے ہیں کہ کوفے جانے کا ارادہ بدل دیں۔ بدلہ میں امام عالی مقام عالم نے طرح کو دعا دے کر فرمایا ۔
گھر میں کیا کروں قادر نہیں ہوں لوٹ چلنے پر
مجھے ہر حال میں پیش نظر ہے مرضی داور
وہی ہوگا جو لکھا ہے ازل میں دست قدر نے
بڑھایا ہے ہمیں میدان میں ذوق شہادت نے
تمنائے شہادت کھینچ لائی ہے یہاں ہم کو
اس میں خوش ہیں رکھے جس میں وہ رب جہاں ہم کو
مصیبت ہو کہ راحت ہو نہیں لازم گلہ کرنا
بشر پہ فرض ہے ہر حال میں شکر خدا کرنا
نہ اپنی شان کی خاطر نہ اپنے نام کی خاطر
فقط آئے ہیں ہم میدان میں اسلام کی خاطر
ہمارا کام تو صبر و رضا سے کام لیتا ہے
تہہِ خنجر بھی خلاق جہاں کا نام لیتا ہے
امام عالی مقام نے چھٹی منزل سے کوچ فرمایا اور وہاں سے چل کر مقام بیضہ پر پہنچے اور وہاں سے چل کر قصر نبی مقاتل میں تشریف فرما ہوئے۔ یہاں پہنچ کر آپ نے دیکھا کہ سامنے سے گرد و غبار آتا ہو آگے بڑھ رہا ہے۔ گرد و غبار کو دیکھ کر آپ نے اندازہ لگا لیا کہ شام کا لشکر ہے۔ چند ساعت کے بعد وہ لشکر شامی سامنے آگیا ۔ جس لشکر کا سردار حُرابنِ رباحی جو کہ بڑا بہادر مرد میداں تھا۔ یکا ایک اس لشکر نے آکر امام عالی مقام کے قافلے کا محاصرہ کر لیا تو امام حق نے لشکر سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم مجھے خوب اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کون ہوں اور میرے حسب نسب کو بھی خوب پہچانتے ہو کہ میں فاتح خیبر کا پسر ہوں۔ زہرا کا لخت جگر ہوں ، مصطفیٰ کا نور نظر ہوں ، میری محبت خدا اور رسول کی محبت ہے۔ مری دشمنی خدا اور مصطفیٰ کی دشمنی ہے۔ میرے نانا شافع محشر ہیں، مرے بابا ساقئیِ کوثر ہیں۔ مرے چچا عقیل و جعفر ہیں۔ مجھے محبوب خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نازوں سے پالا ہے۔ مجھے فاطمہ نے اپنا خون جگر دے کے پالا ہے۔ مرے لیے جبریل جنت تحفہ لایا ہے۔ خدارا مری دشمنی سے باز آؤ۔ اپنے آپ کو دوزخ کی بھڑکتی آگ سے بچاؤ ۔ امام حق کی اس تقریر نے ہنستوں کو رلا دیا۔ سننے والوں کے دل کو ہلا دیا۔ بہت سے لوگ دھاڑیں مار کر رونے لگے اور بہت سوں پر سکتے کا عالم تھا۔
سنی تقریر سب یہ آپ کی جب اہل لشکر نے
کھڑے ہو کر کہا تعظیم سے در سے دلاور نے
نہ ہم نے کوئی خط بھیجا نہ اصلاح نامہ بر بھیجا
دیا سرکار کو دھو کہ کسی نے خط اگر بھیجا
امام پاک نے وہ خط طلب فرمائے خادم سے
جواب تک مطلقا محفوظ سب دو تھیلیوں میں تھے
کہا حر نے دغا دی کوفیوں نے آپ کو مل کر
مگر یہ حکم حاکم ہے ہمیں اے سبط پیغمبر
یہاں سے آپ کو ہم تا عبید اللہ لے جائیں
ہوئے مامور ہیں جس کام پر اس کو بجا لائیں
حصین ابن نمیر اک افسر اعلیٰ ہمارا ہے
اس کے حکم سے لشکر یہاں ہم نے اتارا ہے
یزید شام کو بہتر تو یہ ہے آپ مخط لکھیں
یہاں سے عامل کوفہ کو ہم عرضی چلا بھیجیں
اجازت دونوں درباروں سے ممکن ہے کہ آجائے
ارادہ دوسری جانب سفر کا پھر کیا جائے
در بارگاه حسین علیہ سلام میں
امام عالی مقام علیہ السلام نے حُر کی تمام گفتگو کو غور سے سنا اور سن کر حُرسے ارشاد فرمایا کہ اے بہادر حُر!تم نے جن دونوں کا نام لیا ہے یہ دونوں اس لائق نہیں ، دونوں نا اہل ہیں کیونکہ امیر شایعنی یزید خالق کائنات کی اطاعت سے روگرداں ہے احکامات قرآن کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا ہے دین وملت کا اُسے ذرہ برابر خیال نہیں ہے اور نہ ہی اُسے حرام و حلال کی کچھ تمیز ہے اور نہ اُس کی نظر میں مذہب اسلام کی کچھ عزت ہے وہ ہر وقت نفس اور شیطان کی اطاعت کرتا ہے اور شریعت پاک کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اسے خریہ غیر ممکن ہے کہ میں اُسے

اولو الامر تسلیم کرلوں مرے نزدیک وہ ایک غدار ہے خائن ہے غاصب ہے اُس کی بدکاریاں تمام دنیا میں سورج زیادہ روشن ہو چکی ہے اُس کے کردار سے اسلام کو ہر وقت خطرہ ہے حُرنے امام عالی مقام کا ارشاد گرامی سن کر ادب سے امام عالی مقام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ سرکار نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے بجا ہے اور سب درست ہے اور جذبہ دین و آزادی لازمی ہے سرکار کا ہر ہر لفظ حقیقت سر چشمہ ہے دین کی جان ہے ایمان کی روح ہے شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کام کی زینت ہے مسلمانوں کے چکتا ہوا آفتاب ہے گلشن وحدت کی بہار ہے فرمان خدا و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت کا اظہار ہے قرآن مجید فرقان حمید کی تفسیر ہے اس میں ذرے ے برابر شک کرنا سراسر تقصیر مسلمانی کے خلاف ہے۔
ارشاد امام حق
امام دوسرا کو خر کی باتوں پر جلال آیا
رگیں جنبش میں آئیں خون حیدر میں ابال آیا
کہائر سے میں شیر ہاشمی ہوں مرد میداں میں
بظاہر لاکھ میں میدادن میں بے ساز و ساماں ہوں
خدا کے شیر کا بیٹا ہوں یہ معلوم ہے تجھ کو
نہیں ہمت کا میں بیٹا ہوں یہ معلوم ہے تجھ کو
ابو طالب کا میں پوتا ہوں یہ بس جانتا ہے تو
محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا نواسہ ہوں مجھے پہچانتا ہے تو
ارے نادان کر کیا موت سے مجھ کو ڈراتا ہے
قدم راه جهاد حق سے میرا جگمگاتا ہے
نگاہ قہر میں وہ ہیبت پنہاں نظر آئی
کہ خر کو سامنے تیغ اجل عُمریاں نظر آئی
غم و غصے کی حالت میں سفر کا عزم فرمایا
جلال ہاشمی کو دیکھ کر خر دل میں گھبرایا
قدم راه جهاد حق سے اب تو ہٹ نہیں سکتا
لکھا جو دست قدرت کا ہے اب وہ کٹ نہیں سکتا
نہیں ہٹتے مجاہد جب قدم میداں میں دھرتے ہیں
خدا سے ڈرنے والے کب بھلا لشکر سے ڈرتے ہیں
یہ نظم امام حسینؑ کی حر کے سامنے جرأت مندانہ گفتوگو کو بیان کرتی ہے، جب امامؑ کو باطل کی اطاعت پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی۔ امام حسینؑ نے نہایت وقار اور جلال کے ساتھ اپنا نسب، مقام اور مقصد واضح کیا کہ وہ شیرِ خدا علیؑ کے فرزند، ابو طالبؑ کے پوتے اور نبی کریم ﷺ کے نواسے ہیں، اور حق کی راہ میں کسی طاقت یا موت سے مرعوب نہیں ہوتے۔ نظم میں امامؑ کا عزم، اللہ پر توکل اور جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ نمایاں ہے، جس سے حر پر ہیبت طاری ہو گئی۔ یہ نظم ہمیں امام حسینؑ کی استقامت، شجاعت اور دینِ حق کے لیے بے مثال قربانی کی جھلک دکھاتی ہے۔
آخری منزل
چنانچہ امامِ عالی مقامؑ نے وہاں سے سفر کا عزم فرمایا، اور چلتے چلتے مقامِ طف پر پہنچے، جسے کربلا بھی کہا جاتا ہے۔ امامِ عالی مقامؑ یہاں پہنچ کر ٹھہرے اور اپنے تمام رفقاء سے فرمایا: “ایک روز میں اپنے والد، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، کے ساتھ اس مقام پر آیا تھا۔ میرے والد بزرگوار نے جب اس جگہ کو دیکھا تو زار و قطار رونے لگے اور فرمایا: ‘یہ وہ مقام ہے جہاں مصطفیٰ ﷺ کا سرسبز و شاداب باغ خزاں کی نذر ہو گا، جہاں آلِ رسول ﷺ کے خیمے نصب ہوں گے، اور ہاشمی شہزادوں کو ایک ایک بوند پانی کے لیے ترسایا جائے گا۔’ پھر مجھے اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا: ‘اے نورِ نظر! یہ وہ جگہ ہے جہاں تم دین کی بقا کے لیے اپنا سر قربان کرو گے۔'” امامِ عالی مقامؑ نے یہاں خیمہ لگانے کا حکم صادر فرمایا۔ زمین پر جہاں میخ گاڑی جاتی، وہاں سے تازہ خون نکل آتا، اور جس درخت کی شاخ توڑی جاتی، اس سے خون کا فوارہ جاری ہو جاتا۔ یہ مقدس قافلہ ۲ محرم الحرام، مطابق ۹ اکتوبر ۶۸۰ء کو میدانِ نینوا میں اقامت گزیں ہوا—ایسا قافلہ جس کی نظیر تمام عالم میں نہیں ملتی؛ جس کی خواتین، زہرا ؑ سردارِ نساء الجنّۃ کی بیٹیاں تھیں، جس کا سالار وہ تھا جو دوشِ رسول ﷺ کا شہسوار تھا، جس کے عمامے کو آسمان کے تارے چومتے تھے، اور جس کے قدموں کو صحرا کے ذرے بوسہ دیتے تھے۔ یہ قافلہ اپنے سفر کو مکمل کر کے ایسی سرزمین پر قیام پذیر ہوا، جہاں موت کو ابدی حیات کی بشارت تھی۔ امامِ عالی مقامؑ نے فرمایا۔۔۔:
دشمن یہاں خون ہمارا بہائیں گے
زندہ یہاں سے ہم بھی پھر کے نہ جائیں گے
آل نبی (س) کا ہوگا ای با تو قتل عام
سب تشنہ لب یہاں پر سر اپنا کٹائیں گے
ہوگا ہر اک شہید یہاں مصطفیٰ کا
لعل اور لاش قتل گاہ سے ہم سب کی لائیں گے
اُدھر جلاد ابن زیاد کے دربار میں اس کی خبر لے کر
ایک قاصد پہنچتا ہے فرات کے کنارے پر
اب سفر اختتام ہوا مدینہ کا
میرے لیے یہ سفر ایک پیغام ہے: کبھی کبھی سچائی کا راستہ تنہا ہوتا ہے، مگر وہی راستہ تاریخ بدلتا ہے۔ امام علیہ السلام نےدکھایا کہ قربانی صرف جسم کی نہیں، نظریے کی بقا کے لیے ہوتی ہےاور یہ شوقِ شہادت جو آپ عالی مقامؑ کو کربلا تک لیے آیا۔
یہ معلوماتی اور روحانی بلاگ حضرت سرکار پیر ابو نعمان رضوی سیفی صاحب کی ترتیب و تحریر کا نتیجہ ہے، جو جذبۂ اخلاص کے ساتھ امتِ مسلمہ کی دینی و روحانی رہنمائی فرما رہے ہیں۔اگر یہ مضمون آپ کے لیے مفید اور بصیرت افزا ثابت ہوا ہو تو براہِ کرم اس پر اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں، اور اسے اپنے دوستوں، اہلِ خانہ، اور دیگر احباب کے ساتھ شیئر کریں تاکہ یہ پیغام زیادہ سے زیادہ قلوب تک پہنچ سکے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس بلاگ کی یہ سلسلہ وار فہرست جاری رکھی جائے، تو نیچے کمنٹ باکس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔