واقعہ کربلا کی مکمل تفصیل حصہ دوم
کربلا کا واقعہ صرف ایک جنگ نہیں بلکہ ایک ابدی پیغام ہے، جہاں امام حسین رضی اللہ عنہ ے ظاہری شکست کو ابدی کامیابی میں بدل دیا۔ جب یزید نے خلافت کو موروثی رنگ دے کر فاسق طرزِ حکومت رائج کیا، تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے نہ صرف بیعت سے انکار کیا بلکہ دین کی اصل روح بچانے کا عہد کیا۔ مکہ کی جانب ہجرت، کوفیوں کے خطوط، اور خوابِ نبویؐ جیسے روحانی اشارات نے اس سفر کو شہادت کے شوق اور حق کی سربلندی سے ہمکنار کر دیا۔ کربلا آج بھی زندہ ہے، کیونکہ یہ ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے اور ہر دور کے انسان سے سوال کرتی ہے: “حق کے سامنے تمہاری حیثیت کیا ہے؟”
اگر آپ نے ہمارے بلاگ کا حصہ اول نہیں پڑھا تو نیچے دیے گئے لنک پہ جا کر آپ اس کا پچھلا حصہ پڑھ سکتے ہیں۔
کلیک کریں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ کا مشورہ
ترجمہ طبری میں مذکور ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کے جملہ خطوط حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو دکھائے انہوں نے فرمایا میری رائے میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ تو یہیں تشریف رکھیں اور اول اپنی طرف سے ایک وکیل وہاں بھیج دیں تا کہ وہ ان کو اچھی طرح دیکھے کہ کس چیز پر میں اور کیا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ اہل کوفہ بڑے بے وفا آدمی ہیں ۔ آپ کو معلوم نہیں یہ وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے آپ کے والد کے ساتھ ظلم و جفا ئی ۔ حضرت سید نا امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا شیعہ میں سے بارہ ہزار آدمی میرے ہمدم اور ہمقدم ہیں اور میری اطاعت و بیعت کا ربقہ اپنی شوق کی گردنوں میں ڈالنے پر آمادہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے صاحبزادے اس جمعیت پر کبھی بھروسہ نہ کریں امتحان مشروط ہے۔ اگر آپ ضرور ہی جانا چاہتے ہیں تو کسی کو پہلے بھیج کر دیکھیں اگر آپ کا قاصد ان لوگوں کا حسن سلوک تحریر کرے اور وہ اس کے مطیع فرمان ہوں پھر آپ شوق سے جائیں ۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ رائے بہتر ہے اور صواب معلوم ہوتی ہے ۔ یہ مشورہ ترجمہ طبری کے علاوہ اور کسی کتاب میں نہیں دیکھا گیا ہے۔
اہل کوفہ کی حضرت مسلم اللہ کے ہاتھ پر بیعت اور خط
بہر صورت آپ نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو بھیجنے پر مجبور کیا اور فرمایا وہاں جاکر ایک گوشہ میں بیٹھنا اور بشرط اس کے کہ کوئی تمہاری اطاعت کریں مجھے طلب کرنا۔ تا کہ میں بھی پہنچوں ۔ پس جب حضرت مسلم بیا نیہ کوفہ میں پہنچے اور ایک محفوظ گوشہ میں بیٹھے اور تمام کو فہ میں یہ خبر پھیل گئی کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے پہلے ان صاحب کو اپنی بیعت کے لیے بھیجا ہے اور پیچھے وہ بھی تشریف لا رہے ہیں تو اس وقت ایک کثیر جماعت اور جم غفیر حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئی اور بارہ ہزار لوگوں سے زیادہ نے حضرت مسلم رضی اللہ عنہ سے بیعت کی اور بظاہر سب نے ان کے ساتھ محبت کا دم اور دلاسہ کا نعرہ مارا جب تیس ہزار لوگوں کے قریب حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کی رفاقت میں جمع ہو گئے تو حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنا اور کوفے کے بڑے بڑے سرداروں جیسے سلیمان بن شرط اور مسیب بن ناعیہ اور رفاعہ بن شداد اور حبیب بن مظہر اور ہانی بن عروہ وغیرہ کا خط بائیں مضمون امام ہمام کی خدمت میں روانہ کیا کہ تمام اہل کوفہ میرے یہاں آنے سے بہت خوش اور آپ کے دیدار کے منتظر میں اور ایک ایک شخص آپ کا آرزومند ہے ۔۔۔
جب یہ خط حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا آپ نے بے حد خوشی کے ساتھ ہی کوچ کا پکا ارادہ کیا اور حضرت مسلم دل اللہ کو لکھ بھیجا کہ تم مطمئن رہو میں بہت جلد آ رہا ہوں۔ پس دوسرے روز قاصدوں کو رخصت کیا اور جس قدر آپ کے رفیق اور شیعہ بصرہ میں موجود تھے ان سب کے پاس اپنا غلام بھیجا اور بصرہ کے سرداروں کو جیسے احنف بن قیس اور مالک بن شریح اور سعید بن عمر کو تاکیدی خط لکھا کہ جو تمہارے شیعہ میں سے ہیں اور جو ہماری دوستی کا دم بھرتے ہیں وہ سب کو فہ میں جمع ہو جائیں ۔ اُدھر امام حسین رضی اللہ عنہ نے کوچ کیا ادھر قصاو قدر نے کچھ اور ہی رنگ جمایا یعنی حضرت مسلم رضی اللہ عنہ اور ان کے دونوں بچوں خورد سال کو بے رحم کو فیوں نے شہید کر ڈالا
یزید کو عبد اللہ کا خط اور یزید کی پریشانی
چنانچہ تھذیب التھذیب” اور ” ترجمہ طبری میں ہے کہ یزید کے دوستوں میں سے ایک شخص جس کا نام عبداللہ بن مسلم تھا نعمان بن بشیر حاکم کوفہ کے پاس جا کر کہا کہ اسے نعمان دس روز ہوئے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوفہ میں آئے ہیں اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بھی آ رہے ہیں اور تیرے لیے لازم ہے کہ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ ان کو پکڑ کر یزید کے پاس بھیج دے چونکہ نعمان بن بشیر ، رسول اللہ ﷺ کی محبت سے کامل نصیبہ اور وافر بہرہ پائے ہوئے تھے یہ سنتے ہی کلیجہ میں چوٹ سی لگ گئی اور کہا اے عبداللہ اگر لوگ ان کو چھپائیں گے میں نام : کروں گا اگر وہ میرے ساتھ جنگ کریں گے میں ہرگز نہ کروں گا۔ یہ سن کر عبداللہ بن مسلمہ نہایت دلبر داشتہ ہو کر باہر نکل آیا اور بطور خود یزید کو ایک خط ہایں مضمون لکھا کہ اللہ حصرت مسلم بن عقیل برضی اللہ عنہ کوفہ میں آئے ہوئے ہیں اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بھی آنے والے میں لوگوں کی بہت جمعیت ان کے ہمراد ہے میں نے نعمان والی کوفہ سے یوں کہا اور اس نے یہ جواب دیا تو بہت جلد کو فہ کے لیے کوئی اور امیر بھی ۔ یزید اس خبر کے سننے سے بے حد پریشان ہوا ۔
لوگوں کا بیعت کرنا

تاریخ ابن ابی حاتم وغیرہ میں آیا ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو تو کوفہ روانہ فرمایا اور آپ تہیہ اسباب میں مشغول ہوئے ۔ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ منازل طے کر کے کوفہ پہنچے اور مختار بن عبیدہ کے مکان میں اترے پھر ہانی بن عروہ نے گھر تشریف لے گئے یہاں بقول بعض اٹھارہ ہزار لوگ اور بقول بعض تیس ہزار اور بقول بعض چائیں ہزار لوگوں نے ان سے بیعت کی اور جب یزید پلید کواس کی خبر بھی گئی تو سخت حیران ہوا
گورنر کوفہ معزول اور ابن زیاد مقرر
ترجمہ طبری میں ہے کہ جب یزید نے وہ خط پڑھا تو اپنے باپ کے مولا کو جک نے یزید کی پرورش کی تھی بلا کر کہا کہ حضرت سید نا امام حسین رضی اللہ عنہ میری مخالفت کے لیے مرے آ رہے ہیں اگر کوفہ میں آگئے تو یہ مجھنا کہ عراق ہاتھ سے جاتا رہا ایسا کوئی شخص تجویز کرو جو ان کے اعوان و انصار کو قتل کر ڈالے اور یہ فتنہ کی آگ اور فساد کا شعلہ دب جائے اس نے کہا یہ کام عمر عبید اللہ بن زیاد کے اور کسی سے نہ ہو گا۔ پس نے یہ پلید نے نعمان بن بشیر کو فورا معزول کر کے مائم بصرہ عبید اللہ بن زیاد کو کوفہ اور عراق کی امارت پر مقرر کر کے بھیجا اور بتا کید لکھا کہ بصرہ میں کسی کو اپنا خلیفہ کر کے کوفہ میں بہت جلد پہنچ کر حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ان کو اور جنہوں نے اس سے بیعت کی ہے سب کو قتل کا شربت پلا پھر حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اس سے اگر ملاقات ہو تو ان سے بیعت لے اگر وہ بیعت سے انکار کریں اور تو فورا ان کا سرکاٹ کر میرے پاس بھیج دے۔
فصول المھمہ ” میں ہے کہ ان دنوں یزید ، عبید اللہ بن زیاد سے ناخوش تھا اور اس کو بصرہ سے عنقریب معزول کرنا ہی چاہتا تھا مگر اس مہم کے انجام کے لیے اسے لکھا کہ میں نے بصرہ کا حکم تجھے برقرار رکھا اور مزید برآں کو فہ کا تمام اختیار تجھے دے دیا۔
اہل بصرہ کو ابن زیاد کا مکی دینا
ترجمہ طبری وغیرہ میں بھی لکھا ہے کہ عبید اللہ ابن زیاد اس سے بہت خوش ہوا اور اپنے بھائی بصرہ میں اپنا نائب بنا کر کوفہ کا ارادہ کیا اسی رات کو مسلم بن جارود، عبید اللہ بن زیاد کے پاس آ کر کہنے لگا کہ یہاں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا قاصد آیا ہے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دوستوں اور مہتران بصرہ نے اسے پوشیدہ رکھا ہوا ہے اگر تو وہاں جائے تو شاید وہ لوگ تیرے ڈر سے اسے ظاہر کر دیں۔ عبید اللہ بن زیاد نے اسی رات کو حضرت سیدنا امام حسین علی رضی اللہ عنہ کے غلام سلیمان نامی شخص کو بلایا اور مار پیٹ کی وجہ سے اس سے اقرار کرایا اور آمد و رفت کی خبر سے پرسان حال ہوا اس نے مجبور ہو کر کہا بیشک میں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا قاصد ہوں اور ان کا خط اہل بصرہ کے پاس لایا تھا اس موذی نے دوسرے دن تمام اہل بصرہ کو جمع کر کے کہا مجھے اچھی طرح سے معلوم ہو گیا ہے کہ تم میں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا قاصد آیا اور ان کا خط لایا ہے۔ چنانچہ میں نے اس کو پکڑا اور اس سے اقرار کرایا تم میری سفاکی اور بیائی اچھی طرح جانتے ہو۔ دیکھو اب میں کوفہ جا کر حضرت مسلم رضی اللہ عنہ اور ان کے تابعین کو کس طرحتہ تیغ کرتا ہوں اب تم ہو شیار رہو اور آگاہ ہو جاؤ یہ کہ کر حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بھی نسخہ کے قاصد سلیمان کو اس مجمع میں بلا کر آرہ سے دو پارہ کر ڈالا اور کہا جن لوگوں کے پاس حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا خط آیا ہے انہیں بھی اسی طرح قتل کروں گا۔
الغرض عبید اللہ بن زیاد بصرہ سے کوفہ پہنچا اور لوگوں کو بہت ڈرایا دھمکایا یہاں تک کہ حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کی جماعت کو بالکل پریشان اور تتر بتر کر دیا۔
ابن زیاد کا مکاری سے کوفہ آنا
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ عبید اللہ ابن زیاد بے حد سپاہ لے کر کوفہ روانہ ہوا جب مقام قادسیہ میں پہنچا تو شکر سے علیحدہ ہو کر حاجیوں کی صورت بنا کر ایک بڑا سا عمامہ سر پر رکھ کر اونٹ پر سوار ہو کر مغرب و عشاء کے درمیان اس رستہ سے جہاں سے حاجی آتے ہیں آیا۔
نیز طبری اور دیگر کتب میں جن سے یہ بیان گیا ہے مذکور ہے کہ ابن زیاد صرف دس سواروں کے ساتھ آیا چونکہ اہل کوفہ برابر حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری کے منتظر تھے اور مردود اس راہ سے آیا جہاں سے قافلہ حجاز آتا ہے اس وجہ سے اسے دیکھ کر سب کو یقین ہو گیا کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں دیکھتے ہی سلام اور مرحبا کے نعرے مارنے لگے اور قدمت خیر قدوم کا دم بھر نے لگے اور خوشی خوشی یا ابن رسول الله قدمت خیر قدوم ” کہتے اور دف بجاتے ہوئے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ ان کے خیال میں اس مردود کے آگے آگے قدم اٹھائے چلے جاتے تھے اور ہر ایک اپنے گھر میں اتارنے کی استدعا کرتا تھا مگر یہ ملعون خاموشی سے چلا جارہا تھا اور کسی کا جواب نہ دیتا تھا ہاں یہ بات بخوبی سمجھ گیا کہ انہوں نے حضرت سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ مجھے سمجھا ہے اور ان کے دلوں میں امام کی بڑی محبت جمی ہوئی ہے۔ غرضکہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ کوفہ کے دارالامارت میں گیا۔
دار الامارت میں داخلہ اور اہل کوفہ کو ڈرانا دھمکانہ
ترجمہ متعارف طبری میں مذکور ہے کہ جب عبید اللہ بن زیاد، دارالامارہ میں پہنچا تو نعمان بن بشیر نے دار الامارت کا دروازہ بند کر لیا اور ہجوم خلائق کی وجہ سے کوٹھے پر چڑھ گیا اور گھبرا کر بآواز بلند کہا اور اے ابن رسول اللہ کی ہی آپ یہاں سے کسی اور جگہ تشریف لے جائیں آپ کے لیے یہاں ہرگز مناسب نہیں پھر عبید اللہ بن زیاد کے لوگوں نے نعمان کو بہت سی گالیاں دیں اور سختی کے الفاظ سے یاد کیا اور چاہا کہ زبردستی دروازہ توڑ کر اندر چلے جائیں ۔ نعمان نے کہا میں کبھی دروازہ نہ کھولوں گا میں اس امر کو ہرگز جائز نہ رکھوں گا کہ سید نا حضرت امام حسین
بڑھنا میرے کوٹھے پرقتل کیے جائیں اس وقت عبید اللہ بن زیاد ملعون سے ضبط نہ ہو سکا سر سے عمامہ اتار کر پھینک دیا اور غصہ سے کہا اے نعمان تجھ پر خدا کی لعنت ہو جلدی دروازہ کھولو پھر تو جو لوگ اس کے ہمراہ تھے اور اسے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ خیال کیے ہوئے تھے اس کے رنگ فق ہو گئے چھکے چھوٹ گئے بالکل پسپا ہو گئے اور نعمان نے دروازہ کھول دیا۔ پس عبید اللہ دارالامارہ میں داخل ہوا اور صبح ہوتے ہی اس نے تمام لوگوں کو مسجد میں جمع کر کے اڈل اپنی سرداری کا فرمان ریاست کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا پھر تمام حاضرین کو یزید کی مخالفت اور حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی موافقت پر بیحد تحذیر اور لا انتہا تخویف دلائی اور باوجود قلت سپاہ ایک ہی دن میں تمام لوگوں کو پریشان کر دیا۔
جب میں تاریخ کے اوراق پلٹتا ہوں اور کوفہ کے بے وفا موسموں کی آہٹ سنتا ہوں، تو دل بے اختیار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی فراست، اخلاص اور قربانی کو سلام کرتا ہے۔ ایک طرف اہلِ کوفہ کے پرجوش خطوط اور محبت بھرے پیغامات تھے، دوسری طرف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جیسے دوراندیش بزرگ کا فہم و تدبرکہ “انہیں پہلے آزماؤ، پھر قدم بڑھاؤ”۔ امام عالی مقام نے اپنے وکیل حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ روانہ کیا، جہاں ابتدا میں محبتوں کا سیلاب آیا، ہزاروں نے بیعت کی، لیکن پھر وہی پرانی کوفی روش، سازشیں، خوف، اور وفاداری کا جنازہ نکل گیا۔ یزید نے جب حالات کی خبر سنی تو عبید اللہ بن زیاد جیسے سفاک کو بھیجا، جس نے دھوکے، دھونس، اور تشدد سے کوفہ کے ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔
یوں لگتا ہے جیسے تاریخ نے سانس روکی، وقت تھم گیا، اور ظلم کے اندھیرے کربلا کی طرف بڑھنے لگے۔ یہ سب کچھ اس سفر کی تمہید ہے جو حق اور باطل کی آخری ٹکر کا آغاز تھا۔
To Be Continued Soon
یہ معلوماتی اور روحانی بلاگ حضرت سرکار پیر ابو نعمان رضوی سیفی صاحب کی ترتیب و تحریر کا نتیجہ ہے، جو جذبۂ اخلاص کے ساتھ امتِ مسلمہ کی دینی و روحانی رہنمائی فرما رہے ہیں۔اگر یہ مضمون آپ کے لیے مفید اور بصیرت افزا ثابت ہوا ہو تو براہِ کرم اس پر اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں، اور اسے اپنے دوستوں، اہلِ خانہ، اور دیگر احباب کے ساتھ شیئر کریں تاکہ یہ پیغام زیادہ سے زیادہ قلوب تک پہنچ سکے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس بلاگ کی یہ سلسلہ وار فہرست جاری رکھی جائے، تو نیچے کمنٹ باکس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔