قربانی کے جانور کون کونسے ہیں اور ان کی عمریں کتنی ہونی چاہئیں؟

قربانی کے جانور

 قربانی کے جانور کون کونسے ہیں اور ان کی عمریں کتنی ہونی چاہئیں؟

شرعی اعتبار سے قربانی کے جانور تین طرح کے ہیں

٭اونٹ

٭گائے

٭بکری

ان تینوں قسموں میں ان کی نوعیں بھی داخل ہیں ، چنانچہ فر، ماده شخصی و غیر خصی ، سب کا حکم یکساں ہے یعنی ان سب کی قربانی ہو سکتی ہے۔

بھینس کو گائے کے ساتھ اور بھیڑ اور دنبہ کو بکری کے ساتھ شامل و شمار کیا جائے گا ، چنانچہ ان کی قربانی بھی جائز ہے ( فتاوی عالمگیری)

نوٹ :۔ چونکہ قربانی کے جانور شریعت کی جانب سے مخصوص ہیں لہذا اگر ان دنوں میں کسی نے قربانی کی نیت سے خرگوش یا مرغی ذبح کی تو وہ قربانی کرنے والا نہ کہلا ئیگا۔

قربانی کےجانوروں کی عمریں

٭اونٹ کم از کم پانچ سال

٭گائے کم از کم دو سال

٭بکری ، کم از کم ایک سال

جانو را اگر مقررہ عمر سے کم ہو تو قربانی نہ ہو گیا ور اگر زیادہ عمر کا ہو تو جائز بلکہ افضل ہے ہاں اگر دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ کا بچا تا ہوا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال کا لگے تو اس کی قربانی جائز ہے۔

 (در مختار )

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی السلام نے ارشاد فرمایا منہ یعنی ایک سال کی بکری ، دو سال کی گائے اور پانچ سال کا اونٹ کی قربانی کر وہاں اگر تم کو دشوار ہو، توچھ سات ماہ کا دنبہ یا مینڈھا ذبح کر لو۔

قربانی میں شرکاء کے مسائل

سوال: ان جانوروں میں کتنے حصے دار شامل ہو سکتے ہیں؟

جواب: بکری و بکر اور نبہ و بھیٹر وغیرہ تو صرف ایک کی طرف سے ہی ادا ہو سکتی ہے، چنانچہ اگر اس میں دو آدمی شامل ہوئے تو کسی کی بھی نہ ہوگی۔

مثلاً زید و عمر نے پانچ پانچ سور و پیہ ملا کر ایک بکرا خریدا اور یہ نیت کی کہ یہ ہم دونوں کی طرف سے ہے تو کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی ۔ یونہی گھر کا سر پرست ایک بکرالا کر اس طرح نیت کرے کہ یہ جانور میرے پورے گھر والوں کی طرف سے ہے تو کسی کی طرف سے بھی ادا نہ ہوگی ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ قربانی اپنی طرفف سے کرے اور اس کا ثواب تمام گھر والوں کو بخش دے۔

ہاں گائے اور اونٹ میں سات آدمی حصہ ملا سکتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الم نے ارشاد فرمایا گائے سات آدمیوں کی طرف سے اور اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے کفائت کر سکتا ہے

(ابو داؤد، باب البقر والجزور عن کم تجزی)

شرکاء سے متعلقہ ضروری مسائل

گائے یا اونٹ میں شریک افراد کو درج ذیل مسائل کا یا د رکھنا بے حد ضروری ہےاگر اونٹ یا گائے کے شرکاہ میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہوا تو بقیہ کی قربانی بھی نہ ہوگی

در مختار، ردالمختار) )

 مثلاً 7000 کی گائے میں پانچ نے ایک ایک ہزار روپے، چھٹے نے ڈیڑھ ہزار اور ساتویں نے پانچ سو روپے ملائے تو اب چونکہ آخری شخص کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہے لہذا ان میں سے کسی کی بھی قربانی نہ ہوئی۔

ایک گائے میں آٹھ آدمی شریک ہوئے کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہے  رد المختارشرکاء میں سے کسی ایک کی نیت فقط گوشت حاصل کرنے کی ہے مقربانی کی نہیں تو بقیہ کی قربانی بھی نہ ہوگی۔

مثلاً شرکاء نے زید کو گائے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ زید جوابا کہتا ہے کہ میں تو قربانی کے لئے بکرا خرید چکا ہوں چلو ایسا ہے کہ میں شریک ہو کر کباب وغیرہ کے کئے گوشت لے لیتا ہوں ، آپ لوگ قربانی کر لیں تو اس صورت میں بھی کسی کی قربانی نہ ہوگی۔

 (رد المختار )

نوٹ :- مذکورہ مسئلے کے پیش نظر شریک ہونے سے قبل یہ اطمینان بھی کر لیں کہ اس شرکای کی نیت قربانی کی ہی ہے یا نہیں ؟

شرکاہ میں سے ایک کی نیت اس سال کی قربانی کی ہےاور باقی کی گزشتہ سال کی قربانی کی تو اس سال کی قربانی کی نیت کرنے والے کی قربانی درست اور باقی کی نیت باطل ہے، کیونکہ سال گزشتہ کی قربانی اس سال نہیں ہو سکتی ، جیسا کہ عنقریب بیان ہوگا کہ انشاء اللہ عز وجل ۔ ان لوگوں کی یہ قربانی نقل ہوئی اور ان پر لازم ہے کہ گوشت کو صدقہ کر دیں ، بلکہ ان کا ساتھی کہ جس کی قربانی درست تھی وہ بھی گوشت صدقہ کر دے۔

 (ردالمختار)

شرکاء میں سے کچھ قربانی اور کچھ عقیقہ کرنے کی نیت کریں یہ درست ہے (رد المختار )

قربانی کے لئے گائے خریدی ( اس نیت کے ساتھ کہ بغیر شرکاء کے کرے گا ) پھر اس میں چھ آدمی کو شریک کر لیا ، سب کی قربانیاں ہو جائیں گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے ۔ ہاں اگر خرید تے وقت ہی اس کا یہ ارادہ تھا کہ اس میں دوسروں کو شریک کروں گا ، تو اب یہ مکروہ نہیں ۔۔۔ اور ۔۔۔ اگر خریدنے سے پہلے ہی شرکت کر لی جائے تو یہ سب سے بہتر ہے۔

( عالمگیری )

غیر مالک نصاب (یعنی شرعی فقیر ) نے قربانی کے لئے گائے خریدی تو چونکہ خریدتے ہی اس پر گائے کی قربانی واجب ہو جائے گی، لہذا اب یہ دوسروں کو شریک نہیں کر سکتا ( عالمگیری) 

قربانی کے جانور کی خصوصیات

قربانی کے جانور کی خصوصیات
قربانی کے جانور کی خصوصیات

سوال: قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہیے؟

جواب: مستحب ہے کہ قربانی کا جانور خوب فربہ ، خوبصورت اوربڑا ہو

(عالمگیری)

حضرت بقیہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ لم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ قربانی وہ ہے، جو زیادہ مہنگی اور زیادہ فربہ ہو ( سنن کبری )

حیی بن سعید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ابو امامہ بن سہیلی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ مدینہ منورہ میں ہم قربانی کو جانوروں کو خوب موٹا کرتے اور سب مسلمان کا یہی معمول تھا۔

(بخاری شریف ۔ باب فی اضحیہ النبی صلی )

قربانی کےجانور کے عیب

سوال: وہ کون کون سے عیوب ہیں جن کے باعث قربانی جائز نہیں رہتی ؟

جواب: عیب سے متعلق اجمالاً یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہیے تھوڑا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مگر وہ ہوگی اور زیادہ ہو تو ہوگی ہی نہیں

 (عالمگیری)

عیوب کی تفصیل

جب آپ جانور خرید نے جائیں تو اسے ہر طرف سے اچھی طرحدیکھ لیں ، کیونکہ عیب دار جانور ذبح کرنے کی صورت میں واجب ادا نہ ہوگا اور دوسرا جانور خریدنا پڑے گا۔ چنانچہ درج ذیل تفصیل کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں ، تاکہ آپ خود بھی غلطی اور دھوکے سے بیچ سکیں اور دوسروں کو بھی بچانے میں کامیاب ہو جائیں۔ چنانچہ ان جانوروں کی قربانی نہ ہوگی

٭ا جس کی ناک کٹی ہو

٭اندھے اور کانے کی

٭جس کے پیدائشی دونوں یا ایک کان بند ہوں ۔ چھوٹے کانوں والے کی جائز ہے۔

٭جس کا کان تہائی یعنی تیسرے حصے سے زیادہ کٹا ہو تہائی سے کم ہو تو قربانی جائز ہے۔

٭جس کے دونوں یا ایک سینگ ، اگنے کے مقام سے ٹوٹا ہوا ہو لہذا اگر اوپر سے ٹوٹا ہو تو ہو جائے گی۔ یعنی اگر پیدائشی سینگ نہ ہوں تو ہو جائے گی

٭جس کی دم یا چکی تہائی سے زیادہ کئی ہو ۔ (تہائی سے کم ہو تو ہوجائے گی)

٭انتقالاغر کہ جس کی ہڈیوں میں مغز ( یعنی گورا) نہ ہو۔

 ٭لنگڑا جو قربان گاہ تک اپنے پاؤں سے نہ جاسکے۔

٭جس کے دانت نہ ہوں 

٭اگر بکری کی زبان کٹی ہوئی ہو اور وہ چارہ کھا سکتی ہو، تو اس کی قربانی جائز ہے، ورنہ نہیں

 (تا رخانیہ)

 ٭جس بکری کا ایک تھن یا گائے کے دو تھن کٹے ہوئے یا خشک ہوں۔

٭جس جانور میں اس حد تک جنون ہو کہ چرتا بھی نہ ہو۔ در مختار عالمگیری

خصی و غیر خصی جانور

سوال: خصی جانور کی قربانی افضل ہے یا غیر خصی کی؟

جواب: خصی جانور کی قربانی افضل و اعلیٰ ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی ایم نے جو مینڈھے ذبح فرمائے وہ خصی تھے جیسا کہ ابو داؤد شریف میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ملی ہم نے قربانی کے دن دو سرمئی رنگ کے سینگوں والے خصی مینڈھے ذبح کئے ۔ در مختار میں ہے۔

بکری ، بکرے سے افضل ہے مگر خصی بکرا ، بکری سے بھی افضل ہے

سوال: بعض غیر خصی بکرے اپنا پیشاب پیتے ہیں اور ان سے سخت بد بو آتی ہے کیا ان کی قربانی درست ہے؟

جواب: بہار شریعت (حصہ (15) میں ہے جو بکر اخصی نہیں ہوتا وہ اکثر پیشاب پینے کا عادی ہوتا ہے اور اس میں ایسی سخت بدبو پیدا ہو جاتی ہے کہ جس راستے سے گزرتا ہے وہ راستہ کچھ دیر کے لئے بد بودار ہو جاتا ہے اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کے گوشت سے بد بو دفع ہو گئی ہو تو اس کا گوشت کھا سکتے ہیں ورنہ مکروہ ممنوع ہے 

بعد میں عیب پیدا ہونا

قربانی کے جانورخریدنےکے بعد  عیب پیدا ہونا
قربانی کے جانورخریدنےکے بعد عیب پیدا ہونا

سوال: جس وقت جانور خریدا، بالکل درست تھا، مگر بعد میں عیب دار ہو گیا تو اب اس کا کیا حکم ہے؟

          جواب: اگر قربانی کرنیوالا صاحب نصاب ہے تو دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر ہے تو دیکھا جائے گا کہ اس نے خود اپنے او پر قربانی واجب کی تھی یا نہیں۔ اگر کی تھی تو دوسر الائے ورنہ اس کو ذبح کرے۔

 (ردالمختار)

نوٹ : خود واجب کرنے کی صورت یہ ہے کہ یا تو اس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید ایا منت مانی کہ بکرا قربان کروں گا۔

سوال: اگر بوقت ذبح عیب پیدا ہوا، تو اب غنی اور فقیر کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب: اس صورت میں دونوں کے لئے یہ عیب مصر نہیں ، اسی جانور کی قربانی کریں، ادا ہو جائے گی در مختار میں ہے،قربانی کرتے وقت جانو ر ا چھلا کو دا جس کی وجہ سے عیب دار ہو گیا یہ عیب مضر نہیں یعنی قربانی ہو جائے گی

سوال: اگر جانور قربانی سے پہلے مر گیا تو ؟

جواب: غنی نیا لائے، فقیر نہیں ۔ در مختار میں ہے کہ قربانی کا جانور مر گیا متوغنی پر لازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر کے ذمہ دوسرا جانور واجب نہیں 

سوال: اگر جانور گم ہو گیا یا چوری ہو گیا، تو کیا کیا جائے؟

جواب:اسکا بھی وہی حکم ہے کہ غنی نیا جانور لائے اور فقیر پر دوسرا جانور واجب نہیں اور بالفرض اگر ان دونوں نے نیا جانور خرید لیا اور اب پہلے وال مل گیا تو تو غنی کو تیار ہے کہ دونوں میں سے جس ایک کو چاہے قربان کرے اور فقیر پر واجب ہے کہ دونوں کی قربانیاںکرے۔
(در مختار )

نوٹ: نیا جانور خریدنے کی صورت میں غنی اور فقیر میں فرق اس لئے ہے کہ غنی کے کسی جانور کو خرید لینے سے اس پر اسی جانور کی قربانی واجب نہیں ہوتی اس کی جگہ دوسرا جانور بھی قربان کر سکتا ہے جبکہ فقیر جس جانور کو قربانی کی نیت سے خرید لے تو اس پر اسی کی قربانی واجب ہو جاتی ہے ۔ فتاوی عالمگیری میں ہے ۔ فقیر نے قربانی کے لئے جانور لیا اس پر اس کی قربانی واجب ہے اور اگر غنی خرید تا تو اس خریدنے سے قربانی اس پر واجب نہ ہوتی :۔

جانور کے بچے کا حکم

سوال: اگر جانور کے ذبح سے قبل بچہ ہو جائے تو کیا کریں؟

جواب: اس کے لئے درج ذیل مسائل ملاحظہ فرمائیں۔قربانی کے لئے جانور خریدا تھا۔ قربانی ٭کرنے سے پہلے اس کےبچہ پیدا ہوا، تو بچہ کو بھی ذبح کر دیں۔

٭اگر بچہ کو بیچ ڈالا تو اس کی قیمت کو صدقہ کر دیں۔

٭اگر ذبح نہ کیا ، نہ ہی فروخت کیا اور قربانی کے دن گزر گئے ، تو اس کو زندہ ہی صدقہ کر دیں۔

٭اگر مذکورہ بالا افعال میں سے کچھ بھی نہ کیا اور بچہ اس کے پاس رہا،

 یہاں تک کہ اگلے سال قربانی کا وقت آگیا اور یہ چاہتا ہے کہ اس سال قربانی میں اس ذبح کرے تو یہ نہیں کر سکتا۔ اور اگر اسی کی قربانی کردی، تو دوسری قربانی پھر کرے کہ وہ پہلی قربانی نہ ہوئی اور وہ ذبح کیا ہوا بچہ صدقہ کر دے ، بلکہ ذبح سے اس کی قیمت میں جو کچھ کمی ہوئی ، اسے بھی صدقہ کرے۔

حضرت حجيه بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ گائے کی قربانی سات آدمیوں کی جانب سے کافی ہے

میں نے عرض کیا : اگر بچہ جنے؟ فرمایا ، اس کو بھی ساتھ ہی ذبحکر دو۔

   (ترمذی شریف – باب فی الاشتراک فی الاضحیہ )

قربانی سے قبل جانور سے نفع اٹھانا

سوال: کیا قربانی سے پہلے جانور سے کسی قسم کا نفع اٹھانا جائز ہے؟

جواب: جی نہیں ، اس سلسلے میں درج ذیل مسائل سے آگاہی حاصل کریں۔

٭ا ذبح سے پہلے قربانی کے جانور کے بال اپنے کسی کام کی وجہ سے کاٹ لینا یا اس کا دودھ دوہنا ، مگر وہ ممنوع ہے۔ (در مختار )

٭اور قربانی کے جانور پر سوار ہونا ۔۔ یا ۔۔ اس پر کوئی چیز لا دتا۔۔ یا۔۔ اس کو اجرت پر دینا، غرض اس سے منافع حاصل کرناممنوع ہے۔

٭اگر اس نے اون کاٹ لی یا دودھ نکال لیا تو اسے صدقہ کر دے یا اجرت پر جانور کو دیا، تو اس اجرت کو صدقہ کر دے۔ (در مختار )

٭اگر خود سوار ہوا یا کو یہ چیز لا دی تو اس کی وجہ سے اس میں جو کمی آئی اتنہ مقدار میں صدقہ کرے۔ (در مختار ) 

٭جانور دودھ والا ہے تو اس تھن پر ٹھنڈا پانی چھڑ کے تاکہ دودھ خشک ہو جائے ، اگر اس سے کام نہ چلے تو جانور کا دودھ نکال کر صدقہ کر دے (عالمگیری)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top