زکوٰۃ: فرضیت، احکام اور ضروری مسا ئل
زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، اور اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔ یہ محض ایک مالی فریضہ نہیں، بلکہ ایمان کی آزمائش بھی ہے۔ آج جب لوگ دولت کے پیچھے اندھا دھند بھاگ رہے ہیں، زکوٰۃ ادا کرنا ان کے لیے بوجھ بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ زکوٰۃ نہیں دیتے، وہ اپنے مال کی برکت کھو دیتے ہیں اور آخرت میں سخت عذاب کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس بلاگ میں زکوٰۃ کے تمام اہم مسائل کو واضح انداز میں بیان کیا جائے گا تاکہ کوئی بہانہ باقی نہ رہے۔
- زکوٰۃ: فرضیت، احکام اور ضروری مسا ئل
- زکوٰۃ کی تعریف
- زکوٰۃ کی فرضیت
- زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے ضروری شرائط
- نصاب کا مالک ہونے کی وضاحت
- زکوٰۃ کن چیزوں پر فرض ہے؟
- کیا پہنے جانے والے زیورات پر زکوٰۃ ہے؟
- کرائے پر دی گئی دکان اور مکان پر زکوٰۃ
- نیت کا مسئلہ
- زکوٰۃ کن کو نہیں دی جا سکتی؟
- مدرسہ میں زکوٰۃ دینے کا مسئلہ
- زکوٰۃ دینے کا بہترین طریقہ
- بینک کی طرف سے زکوٰۃ کی کٹوتی کا شرعی حکم
زکوٰۃ کی تعریف
زکوٰۃ اس مال کو کہا جاتا ہے جو شرعی حکم کے مطابق رضائے الٰہی کے لیے کسی مسلمان فقیر کو دیا جائے۔ زکوٰۃ دیتے وقت یہ ضروری ہے کہ دینے والا کسی بھی طرح سے اپنا نفع حاصل کرنے کی نیت نہ رکھے، بلکہ یہ ایک عبادت سمجھی جائے۔
حوالہ: (درمختار، کتاب الزکوٰۃ، ج 3، ص 204 تا 206)
زکوٰۃ کی فرضیت
زکوٰۃ 2 ہجری میں روزوں سے پہلے فرض کی گئی تھی۔ یہ اسلام کے ان چند احکام میں سے ایک ہے جو ابتدا ہی سے مسلمانوں پر لازم کیے گئے۔ جو شخص زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کرے، وہ دائرہ اسلام
سے خارج ہے کیونکہ قرآن میں واضح احکامات موجود ہیں۔
حوالہ: (فتاویٰ ہندیہ، کتاب الزکوٰۃ، ج 1، ص 170)
زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے ضروری شرائط
زکوٰۃ ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو:
نصاب کا مالک ہو (یعنی اتنی مالیت رکھتا ہو جو زکوٰۃ کے دائرے میں آتی ہو)
یہ نصاب نامی ہو (یعنی بڑھنے والا ہو، جیسے تجارت کا مال)
نصاب اس کے قبضے میں ہو (یعنی وہ اس کا خود مالک ہو)
یہ مال حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو (یعنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے بعد بچا ہوا ہو)
کوئی ایسا قرض نہ ہو جو نصاب کو ختم کر دےاس مال پر ایک سال گزر چکا ہو
حوالہ: (بہار شریعت، ج 1، حصہ 5، ص 875 تا 884)
نصاب کا مالک ہونے کی وضاحت
نصاب کا مالک وہ شخص ہوتا ہے جس کے پاس:ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یااتنی مالیت کی رقم یا مالِ تجارت ہو حوالہ: (بہار شریعت، ج 1، حصہ 5، ص 902 تا 903)
نوٹ:
اگر کسی کے پاس سونا، چاندی، کرنسی نوٹ، اور تجارتی سامان ہو، تو سب کو ملا کر نصاب شمار کیا جائے گا اور اسی حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔
زکوٰۃ کن چیزوں پر فرض ہے؟
زکوٰۃ درج ذیل تین اقسام کے اموال پر فرض ہے:
سونا، چاندی اور کرنسی نوٹ
مالِ تجارت (جو بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہو)
چرائی پر چھوڑے گئے جانور (جو سال کا اکثر حصہ جنگل میں چر کر گزارا کریں)
حوالہ: (فتاویٰ ہندیہ، کتاب الزکوٰۃ، ج 1، ص 174)
کیا پہنے جانے والے زیورات پر زکوٰۃ ہے؟
جی ہاں!
کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر سونا پہنا جاتا ہے تو اس پر زکوٰۃ نہیں، مگر یہ غلط ہے۔ سونے اور چاندی کے زیورات پر زکوٰۃ فرض ہے، چاہے وہ استعمال میں ہوں یا نہ ہوں۔
حوالہ: (در مختار، ج 3، ص 270)
کرائے پر دی گئی دکان اور مکان پر زکوٰۃ
٭ دکان کوٰۃ نہیں، لیکن کرائے کی آمدنی اگر نصاب کو پہنچ جائے تو زکوٰۃ واجب ہے۔
٭سی طرح کرائے پر دیئے گئے مکان پر زکوٰۃ نہیں، لیکن اس کی آمدنی پر زکوٰۃ ہوگی۔
حوالہ: (فتاویٰ رضویہ، ج 10، ص 161)
نیت کا مسئلہ
زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے نیت کا ہونا لازمی ہے۔ اگر نیت نہیں کی گئی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔
حوالہ: (درمختار، کتاب الزکوٰۃ، ج 3، ص 222)
سوال: اگر زکوٰۃ دیتے وقت نیت کرنا بھول جائے تو؟
جواب: اگر زکوٰۃ کی نیت پہلے سے کر رکھی تھی، تو ادا ہو جائے گی۔ لیکن اگر نیت نہیں تھی اور مال فقیر کے ہاتھ سے نکل گیا، تو وہ زکوٰۃ شمار نہیں ہوگا، بلکہ عام صدقہ ہو جائے گا۔
حوالہ: (در مختار، ج 3، ص 224)
زکوٰۃ کن کو نہیں دی جا سکتی؟
ان افراد کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں، چاہے وہ فقیر ہی کیوں نہ ہوں:
٭نو ہاشم (نبی کریم ﷺ کی اولاد یعنی سادات)
٭پنے ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی
٭پنی اولاد (بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں)
٭یاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے
حوالہ: (درمختار، ج 3، ص 344 تا 350)
مدرسہ میں زکوٰۃ دینے کا مسئلہ
زکوٰۃ مدرسہ کو دینا جائز ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ رقم کسی فقیر طالب علم کو مالک بنا کر دی جائے۔ اس سے مدرسے کی تعمیر یا ملازمین کی تنخواہوں میں خرچ کرنا جائز نہیں۔
حوالہ: (فتاویٰ رضویہ، ج 10، ص 254)
زکوٰۃ دینے کا بہترین طریقہ
٭زکوٰۃ فقیر کو براہِ راست دی جائے، تاکہ وہ اس کا مکمل مالک بن جائے۔
٭گر مدرسہ، یتیم خانے یا کسی اور خیراتی ادارے کو دی جائے تو یہ ضروری ہے کہ وہ فقیر کو اس کا مالک بنا دیں۔
٭کوٰۃ کو ٹکڑوں میں دینا جائز ہے، لیکن جب زکوٰۃ فرض ہو جائے، تو فوراً ادا کرنا ضروری ہے۔
حوالہ: (فتاویٰ رضویہ، ج 10، ص 75)
بینک کی طرف سے زکوٰۃ کی کٹوتی کا شرعی حکم
اگر بینک آپ کے مال سے زکوٰۃ کاٹ لے، تو اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس مال کو ایسی جگہ خرچ کیا جاتا ہے جہاں کسی مستحق کو مالک نہیں بنایا جاتا۔
حوالہ: (وقار الفتاویٰ، ج 2، ص 414)
نتیجہ
زکوٰۃ کوئی اختیاری عمل نہیں بلکہ فرض ہے، اور اس کی ادائیگی میں تاخیر گناہِ کبیرہ ہے۔ جو لوگ زکوٰۃ نہیں دیتے، وہ دنیا میں بھی اپنے مال کی بربادی دیکھیں گے اور آخرت میں بھی سخت عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اس لیے زکوٰۃ کے مسائل سیکھیں، انہیں سمجھیں، اور وقت پر ادا کریں۔
یاد رکھیں! زکوٰۃ دینا مال کو کم نہیں کرتا بلکہ اسے پاک اور بابرکت بناتا ہے۔
حوالہ: (در مختار، کتاب الزکوٰۃ، ج 3، ص 203)
اپنی زکوٰۃ کا حساب کریں اور آج ہی ادا کریں!