رضائے الہی کے لیے اجتماعی تو بہ کا اہتمام

رضائے الہی کے لیے اجتماعی تو بہ کا اہتمام

یاد   ر کھیئے گناہوں سے تو بہ کرنا راہ نجات کی پہلی سیڑھی ہے اور منزل مقصود تک پہنچنے والوں کے لئے گراں قیمت پونجی ہے، تو بہ گم کردہ راہ لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانے کا ذریعہ ہے اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو یہ بات حیرت انگیز باعث تعجب خیز نہیں کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے لیکن اصل انسان اور اس کی کامیاب زندگی تب ہی ہو گی جب وہ اپنے گناہوں پر نادم ہو کر تو بہ واستغفار کا اہتمام کرے گا۔

ایک سفید ریش بزرگ سے کسی نے پوچھا! باباجی آپ کی عمر کتنی ہوگی ؟ کہا کوئی دس بارہ سال ہوگی ۔ سائل بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا باباجی آپ کے بال سفید اور آپ کہتے ہیں کہ بارہ سال کی عمر ہے فرمایا! کہ ہاں بیٹے جب سے میں نے سچی توبہ کی ہے بارہ سال گزرے ہیں ۔ یہی میری زندگی ہے اس سے پہلے میری زندگی نہیں شرمندگی تھی۔ حقیقت یہی ہے کہ زندگی وہی ہے جو اللہ کے خوف میں گزرے۔

بہر حال اسلام میں تو بہ کا ایک اہم مقام ہے، انسان گناہوں میں ڈوبا ہوا       ہو اور پھر وہ اللہ تعالی کے سامنے گڑ گڑا کر تو بہ واستغفار کا التزام کرلے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو سکتا ہے کہ جیسے کبھی زندگی میں گناہ کے قریب بھی نہ گیا ہو، قرآن وحدیث میں جابجا تو بہ واستغفار کی تلقین کی گئی ہے۔

آج کے اس پرفتن و پر آشوب دور میں جہاں اپنے خالق و مالک کی نافرمانیوں کی بھر مار ہے، اس لئے تو شیطان پے درپے کامیابیوں سے سرشار ہے، جو کہ یقینا مسلمانوں کے لئے باعث عار ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک مسلمان مرد عورت سب کے سب اپنے تمام گناہوں کے بارے میں سچے دل سے توبہ کریں اور آئندہ کبیرہ گناہ نہ کرنے کا عزم وارادہ کریں۔

ذیل میں تو بہ کی شرائط اور طریقہ ذکر کیا جاتا ہے۔

تو بہ کے لیے علماء نے کچھ شرائط بیان کی ہیں، اگر تو بہ ان شرائط کے مطابق ہو تو اللہ کے

ہاں مقبول ہوگی ورنہ مردود، وہ شرائط یہ ہیں ۔

جس گناہ سے تو بہ کر رہا ہے اس کا تعلق اگر حقوق اللہ سے ہے تو تین شرائط ہیں۔

٭تو بہ کرنے سے پہلے گناہ کو بالکل ترک کر دے۔

٭کئے ہوئے گناہ پر ندامت اور افسوس کرے۔

٭آئندہ کے لیے پکا ارادہ کرے کہ دوبارہ یہ گنا بھی نہ کروں گا۔ اس طرح اگر گناہ کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے تو اس میں مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ ایک شرط اور بھی ہے، وہ یہ ہے۔

٭جس کا حق دبایا ہے اس کا حق ادا کر دے یا اس سے معاف کرالے اور اگر یہ ممکن نہ ہو، مثلاً جس کا حق دبایا ہے وہ انتقال کر گیا تو اس صورت میں اس کے ورثاء کو حق ادا کیا جائے ۔ اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس شخص کے لیے صدقات نفلی نمازیں نفلی حج ، ایصال ثواب کرے اور اس کے لیے مغفرت کی دعا کرئے۔

ان شرائط کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کرے کہ اس کے بغیر تو بہ قبول نہیں ہوتی اور ظاہر ہے کہ جب تو یہ ہی قبول نہ ہو تو دعا کیسے قبول ہوگی ۔

(ا)تو بہ کرنے سے آدمی کو رحم دلی، محبت اور نرمی کی دولت ملتی ہے ۔ (ب) اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہونےاور اس کی حمد وثنا کی توفیق ملتی ہے ۔ (ج) رضائے الہی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ (د) اسی طرح اور بھی بندگی کے دوسرے اوصاف حاصل ہوتے ہیں۔ جب بندہ سچی توبہ کر لیتا ہے تو قبولیت تو بہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو مختلف انواع کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں جن کی تفصیل بیان کرنا یہاں ممکن نہیں ۔ (لا) تو بہ کی برکات مسلسل جاری رہتی ہیں ، جب تک کہ بندہ خود ہی تو بہ کو گناہوں کے ساتھ تو ڑ نہ دے۔(مفتاح دار السعادة، لابن الجوزي: ۳۶۵/۱)

با جماعت نماز کی پابندی کرنا

مرد حضرات پانچوں وقت کی نماز با جماعت تکبیر اولی کے ساتھ پہلی صف میں ادا کرنے کی کوشش کریں ۔ اور خواتین گھروں میں نماز کا وقت داخل ہوتے ہی پانچوں نمازیں پابندی سے ادا کریں۔

تلاوت کا اہتمام کرنا

روزانہ قرآن پاک کا کم از کم ایک رکوع ترجمه و تفسیر سے پڑھیں اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق بنائیں۔

معاملات میں صفائی رکھنا

اپنے معاملات ، لین دین وغیرہ میں کسی بھی مسلمان کے ساتھ زیادتی نہ کریں نہ ہی زبان اور ہاتھ سے کوئی تکلیف دیں ، نہ گالی دیں ، نہ برا بھلا کہیں، نہ مزاق اڑائیں اور نہ ہی بے عزتی کریں، رشوت نہ لیں ، جھوٹ ، دھوکہ وفریب سے بچیں۔ ہر ایک کو اپنے سے اچھا سمجھ کر اس کا اکرام کریں۔

سنت کی پا بندی کرنا ہے

ایک مسلمان کی ہمیشہ ہمیشہ کی سعادت و کامرانی خداوند قدوس نے اس میں رکھی ہے کہ وہ اپنی تمام حرکات و سکنات میں رسول اقدس ﷺ کی اتباع کرے۔ کاروباری معاملات سے لے کر گھر کے نجی معاملات تک ، کھانے پینے سے لے کر اٹھنے بیٹھنے تک غرض ہر کام میں ابتاع سنت کی ضرورت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر کسی بھی طرح فوز و فلاح کے کامیاب زمینوں تک پہنچنا ممکن نہیں ان زمینوں تک پہنچنے کا راستہ صرف اور صرف اتباع سنت میں پنہاں ہے۔ ۔

سعادت ہے اتباع سنت میں پنہاں ہر دم خیال رکھو

خدا سے ڈرتے رہو ہمیشہ نظر میں اس کا جلال رکھو

اتباع سنت کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ہر معاملہ کوخداوند قدوس اور اس کے رسول اقدس ﷺ کے فیصلوں یعنی قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھے جب پورے وثوق کے ساتھ یہ معلوم ہو جائے کہ کسی معاملہ میں قرآن وسنت کا فیصلہ یہ ہے تو اس کے بعد اپنی رائے کا کسی بھی طرح کوئی بھی دخل پیدا نہ کرنا چاہئے بلکہ بغیر کسی چوں و چراں کے اللہ اور اس کے رسولﷺکے احکام پر سر تسلیم خم کر دینا چاہیئے اس میں ہماری نجات اور کامیابی ہے۔

اخلاق عمدہ کرلو

اخلاقی برائیوں سے دور رہیں مثلاً : غیبت، حسد، کینہ بغض ، عجب و خود پسندی اور دوسری باطنی بیماریوں سے دور ہیں۔ اور اس کے لئے بندہ عاجز کی کتاب اصلاح باطن کے ستر روحانی پر ہیز اور اسی طرح ” چالیس باطنی امراض اور ان کا علاج کا مطالعہ مفید ہوگا ، انشاء اللہ ۔

اہل حق کی معیت ( ساتھ ) اختیار کرو

علماء کرام ، دین دار ، باعمل اور با سیرت لوگوں کا ساتھ دیں اور ان کے ساتھ تعاون کریں۔ صالحین اور دین داروں کا ساتھ دینے سے معاشرہ میں دین اور دین والوں کا غلبہ ہوگا اور تمام برائیاں ختم ہوں گی۔

حاجت مندوں کے ساتھ تعاون کرو

یتیموں ، بیواؤں ، ناداروں اور غریبوں کی مدد کریں اور ان کے لیے کھانے ، کپڑے، رہائش تعلیم ، علاج اور دوسری ضروریات کے لیے دوسروں کو بھی ترغیب دیں اور اپنے مال سے بھی حسب استطاعت صدقہ کرتے رہیں۔

ضرورت دین کا علم حاصل کرنا ہے

دین کے بنیادی مسائل اور ضرورتوں کا علم حاصل کریں۔ کسی مستند عالم دین کی خدمت میں حاضری دیں اور جو مسلمان دین سے بہت دور ہیں ان کو دین سے قریب کرنے اور دینی باتیں سکھانے کے لیے وقت کی قربانی دیں۔

اپنی اور اپنے گھر والوں کی صحیح دینی تربیت کریں ۔ بے حیائی اور بے پردگی سے اپنے  گھر والوں کو بھی روکیں، بلکہ پردے کا پابند کریں اور اپنے خاندان و محلے میں دوسری مسلمان بہنوں ، بیٹیوں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔

حقوق العباد کی ادائیگی کرنا

شوہر، بیوی ، والدین، اولاد اور دوسرے رشتہ داران سب کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حقوق مقرر کئے ہیں ، ہر ایک کو دوسرے کے حقوق ادا کرنے چاہئیں ۔ والدین کے اپنے حقوق ہیں ، اسی طرح اولاد کے بھی حقوق ہیں ، بیوی کے لیے بھی حقوق مقرر ہیں ، اسی طرح شوہر کے بھی حقوق ہیں ۔ کسی بھی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کسی دوسرے کے ساتھ زیادتی کرے اور حقوق ادا نہ کرے، بلکہ ہر ایک کو دوسرے کے حقوق ادا کرنے چاہئیں اور اس میں بالکل کو تا ہی نہ کرنی چاہیے۔

نفسانی خواہشات سے اجتناب کرنا

آج کے اس پر فتن دور میں اگر نوجوان نفسانی خواہشات سے دامن بچا کر چلیں تو یقینا یہ سب سے بڑی کامیابی ہوگی اور دیگر وہ صفات جن میں اللہ تعالیٰ کی رضا مضمر ہے ان کا حصول آسان ہوگا بلکہ بہت ہی زیادہ آسان ہوگا کیونکہ اگر انسان اپنے نفس پر قابو پالے تو دین پر چلنا مشکل نہیں رہتا۔ ایک اللہ والے نے کیا ہی خوب بات ارشاد فرمائی کہ ایک قدم نفس پر دوسرا قدم جنت کے دروازے پر“ یعنی یہاں تم نفسانی خواہشات کو کچلنے کیلئے ایک قدم نفس پر رکھو گے اور وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارا قدم مرنے کے بعد گویا کہ جنت میں رکھا جائے گا۔ مقصد یہ کہ نفسانی خواہشات کو کچلنے پر انشاء اللہ جنت کا حصول لازمی اور ضروری ہو جائے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top