ذو القعدہ
ذو القعدہ اسلامی قمری کیلنڈر کا گیارہواں مہینہ ہے، جسے ایک حرمت والا اور باعزت مہینہ سمجھا جاتا ہے۔ جب بھی ذوالقعدہ کا چاند نظر آتا ہے، میرے دل میں ایک عجیب سا سکون اُترتا ہے—جیسے کوئی روحانی خاموشی پکار رہی ہو۔ لفظ “ذوالقعدہ” دو حصوں پر مشتمل ہے: “ذو” کا مطلب ہے “والا” یا “جس کے پاس ہو”، جبکہ “القعدہ” کا مطلب ہے “بیٹھنا” یا “آرام کرنا”۔ اس طرح ذوالقعدہ کا مطلب بنتا ہے “آرام کا مہینہ” یا “بیٹھنے والا مہینہ”، اور سچ کہوں تو، یہ معنی اس مہینے کی فضا میں جیسے محسوس بھی ہوتے ہیں۔ یہ ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں قرآن و سنت میں حرمت والا قرار دیا گیا ہے: رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ مجھے ہمیشہ یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ اس مہینے میں جنگ روک دیتے تھے تاکہ حج اور عمرے کا سفر پُرامن ہو سکے—اور اسلام نے اس خوبصورت روایت کو نہ صرف باقی رکھا، بلکہ اسے مزید روحانی گہرائی دی۔ ذوالقعدہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ عبادت صرف عمل نہیں، ایک کیفیت بھی ہے۔ یہ مہینہ عبادت، سکون، اور حج کی تیاری کا ایسا مرحلہ ہے جہاں دل خود بخود جھکنے لگتا ہے۔
ماه ذوالقعدہ کے مشہور واقعات
ذو القعدہ کا مہینہ وہ بزرگ مہینہ ہے جس کو حرمت کا مہینہ فرمایا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا مِنهَا أَرْبَعَةَ حرم یعنی بارہ مہینوں میں چار مہینے حرمت والے ہیں۔ ان میں سے پہلا حرمت والا مہینہ ذوالقعدہ ہے۔
صلح حدیبیہ
صلح حدیبیہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا نازک مگر فیصلہ کن لمحہ ہے، جو ہمیں سکھاتا ہے کہ حکمت، صبر، اور اللہ پر توکّل کیسے بظاہر “شکست” کو “فتح مبین” میں بدل دیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا خواب—جس میں آپ ﷺ نے خود کو اور اپنے جانثار صحابہ کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا—میرے لیے ہمیشہ ایک ایمان افروز لمحہ رہا ہے۔ وہ خواب صرف ایک منظر نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے ایک پیغام تھا: اللہ کی راہ میں نکلنا، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ اسی خواب کی تعبیر کے لیے جب آپ ﷺ 1400 سے زائد صحابہؓ کے ہمراہ، احرام باندھے، قربانی کے جانور ساتھ لیے، نہتے ہو کر مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوئے، تو وہ قافلہ صرف عمرے کا قافلہ نہیں تھا—وہ ایمان، قربانی، اور تسلیم و رضا کا مظاہرہ تھا۔
راستے میں قریش کی مزاحمت، سفارتی رکاوٹیں، حضرت عثمانؓ کا مکہ میں رکنا، اور اُن کے بارے میں پھیلنے والی افواہیں کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے—یہ سب واقعات اُس وقت کے مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش تھے۔ بیعتِ رضوان کا منظر میرے دل کو ہمیشہ جھنجھوڑ دیتا ہے: درخت کے نیچے بیٹھے صحابہ، جو عثمانؓ کی شہادت کی خبر سن کر موت کے لیے تیار ہو گئے، اور نبی ﷺ کے ہاتھ پر جان دینے کی بیعت کی۔ لیکن ان سب جذباتی اور جنگی کیفیات کے درمیان، نبی ﷺ نے صلح کا راستہ اختیار کیا، حالانکہ معاہدے کی شرائط بظاہر انتہائی سخت اور یک طرفہ تھیں۔
مثلاً: مسلمان اسی سال عمرہ نہیں کر سکیں گے، اگر قریش کا کوئی شخص مدینہ آ جائے تو وہ واپس کر دیا جائے گا، لیکن اگر کوئی مسلمان مکہ واپس چلا جائے تو اُسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ حضرت علیؓ نے جب معاہدے کی تحریر میں “رسول اللہ” لکھا، تو قریش کے نمائندے نے اعتراض کیا، اور نبی ﷺ نے وہ الفاظ مٹا دیے۔ میرا دل یہ منظر سوچ کر بھر آتا ہے—کس قدر عاجزی، صبر اور عظمت کا مظاہرہ تھا یہ، کہ نبی آخرالزماں ﷺ نے ایک “ظاہری ہزیمت” کو گوارا کر لیا، صرف اس لیے کہ خون بہنے سے بچ جائے، اور امن کی فضا قائم ہو۔
لیکن حقیقت میں، یہ “صلح” ہی سب سے بڑی “فتح” تھی۔ اس معاہدے کے بعد اسلام کو پُرامن ماحول میں پھیلنے کا موقع ملا، قبائل کو اسلام کے قریب آنے کا وقت ملا، اور دو ہی سال بعد فتح مکہ کا دروازہ کھل گیا۔ یہی وہ موقع تھا جب قرآن نے اعلان کیا:
“إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا” (الفتح: 1)
اور میں جب بھی یہ آیت پڑھتا ہوں، تو دل گواہی دیتا ہے کہ ہاں، بعض اوقات جو ہمیں فوری طور پر شکست نظر آتی ہے، وہ درحقیقت اللہ کی طرف سے بہترین کامیابی کی تمہید ہوتی ہے۔
صلح حدیبیہ میرے لیے صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ زندگی کے ہر مشکل فیصلے میں صبر، حکمت، اور اللہ پر بھروسا رکھنے کا ایک عظیم سبق ہے۔ یہ مجھے یاد دلاتی ہے کہ عاجزی میں عظمت ہے، اور وقتی رکاوٹ درحقیقت ایک بلند مقام کی طرف قدم ہو سکتی ہے۔
عرسِ اُمِّ سلمہ
ماہِ ذوالقعدہ میں 59یا62ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوا،
حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا، جن کا اصل نام ہند بنت ابی اُمیّہ تھا، اسلام کی اُن اولین اور باوقار خواتین میں سے تھیں جنہوں نے نہ صرف ایمان کی روشنی کو دل میں سمویا بلکہ قربانی اور صبر کے عملی مظاہرے سے بھی تاریخ رقم کی۔ ان کا تعلق قریش کے معزز قبیلے بنو مخزوم سے تھا، اور وہ فصاحت و بلاغت، سلیقہ شعاری، اور تدبر میں مشہور تھیں۔ ان کی پہلی شادی حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی، جو نبی کریم ﷺ کے قریبی صحابہ میں سے تھے۔ ہجرتِ حبشہ اور ہجرتِ مدینہ جیسے مشکل ترین لمحات میں انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ بے مثال صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ہجرتِ مدینہ کا واقعہ آج بھی میرے دل کو جھنجھوڑ دیتا ہے: جب ان کے خاندان نے زبردستی ماں، باپ اور بچے کو الگ کر دیا اور حضرت اُمِّ سلمہؓ نے تقریباً ایک سال تک مدینہ جانے کی تڑپ میں ہر روز اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ تنہا تپتی ریت پر روتے ہوئے دن گزارے۔
یہ صبر و فراق کا ایسا منظر ہے جو ایمان کو قوت اور آنکھوں کو نمی عطا کرتا ہے۔
حضرت ابوسلمہؓ کی وفات کے بعد، نبی کریم ﷺ نے اُن سے نکاح فرمایا اور وہ “اُمّ المؤمنین” کے عظیم رتبے پر فائز ہوئیں۔ حضرت اُمِّ سلمہؓ کی ذہانت، حکمت، اور دین فہمی ایسی تھی کہ نبی کریم ﷺ اکثر اہم مواقع پر ان سے مشورہ لیا کرتے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر، جب صحابہؓ احرام کھولنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے، تو نبی ﷺ نے حضرت اُمِّ سلمہؓ سے رائے لی، اور اُن کی تدبیر نے ایک نازک موقع کو حکمت سے سنوار دیا—یہ لمحہ اُن کے فہم کی بلندی کا روشن ثبوت ہے۔ اُنہوں نے 378 سے زائد احادیث روایت کیں، اور خاص طور پر خواتین کے مسائل میں اُن کی رہنمائی کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ حضرت اُمِّ سلمہؓ کی زندگی میرے لیے ایک روشن چراغ ہے—وہ علم کی عکاس، صبر کی مجسم تصویر، اور نبی کریم ﷺ کی صحبت کی برکتوں سے مالا مال ایسی ہستی تھیں جن کی سیرت آج بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے۔
اُن کا وصال 62 ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوا، اور یوں اُمّہ کی ایک عظیم ماں اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئی۔
ذو القعدہ کے روزے
حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص ، ذوالقعدہ کے مہینہ میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے تو اللہ کریم اس کے واسطے ہر ساعت میں ایک حج مقبول اور ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھنے کا حکم دیتا ہے۔ م
ایک حدیث شریف میں ہے کہ ذوالقعدہ کے مہینہ کو بزرگ جانو کیونکہ حرمت والے مہینوں میں یہ پہلا مہینہ ہے۔
اور ایک حدیث مبارک میں ہے کہ اس مہینہ کے اندر ایک ساعت کی عبادت ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے اور فرمایا کہ اس مہینہ میں پیر کے دن روزہ رکھنا ہزار برس کی عبادت سے بہتر ہے۔
( رساله فضائل الشهور )
ذو القعدہ کے نفل
حدیث شریف میں ہے کہ جو کوئی ذوالقعدہ کی پہلی رات میں چار رکعت نفل پڑھے اور اس کی ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ۳۳ دفعہ قل ھو اللہ احد پڑھے تو اس کے لیے جنت میں اللہ تعالیٰ ہزار مکان سرخ یاقوت کے بنائے گا۔ اور ہر مکان میں جواہر کے تخت ہوں گے۔ اور ہر تخت کے اوپر ایک حور بیٹھی ہوگی ۔ جس کی پیشانی سورج سے زیادہ روشن ہوگی۔۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جو آدمی اس مہینہ کی ہر رات میں دورکعت نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قل ھو اللہ احد تین بار پڑھے تو اس کو ہر رات میں ایک شہید اور ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔
اور جو کوئی اس مہینہ میں ہر جمعہ کو چار رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد اکیس بار قل ھو اللہ احد پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے واسطے حج اور عمرہ کا ثواب لکھتا ہے۔
اور فرمایا کہ جو کوئی پنج شنبہ جمعرات کے دن اس مہینہ میں ۱۰۰ سو رکعت پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد دس ۱۰ دفعہ قل ھو اللہ احد پڑھے تو اس نے بے انتہا ثواب پایا۔

