جشن میلاد النبی (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم) کا احادیث سے استدلال

جشن میلاد النبی (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)  کا احادیث سے استدلال

یہ اس عظیم نعمت کا ذکر اور شکرانہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد(صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)کے وسیلے سے دینِ اسلام کا تعارف خود کرایا۔ یہ وہ نعمت ہے جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ آپ  (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم) کی ولادتِ باسعادت کسی معجزے سے کم نہیں، کیونکہ اسی کی بدولت ہمیں دینِ اسلام ملا، قرآنِ مجید ملا، ربِ رحمان کا عرفان نصیب ہوا۔ یہ سراسر عشق کی داستان ہے۔

اگر غور کریں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے فرائض مقرر فرمائے، مگر اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم) کے لیے صرف عشق باقی رکھا۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:

إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلَـٰٓئِكَتَهُۥ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِىِّ ۚ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ صَلُّوا۟ عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا۟ تَسْلِيمًا

بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی  پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔

یہاں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ ربِ کائنات نے عام لفظ مسلمان استعمال نہیں کیا بلکہ ایمان والو کہا۔ گویا خطاب اُن عاشقوں سے ہے جو حقیقتاً ایمان لا چکے ہیں اور جن کے دل محبتِ مصطفی(صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)   سے لبریز ہیں۔

ہمارے پچھلے بلاگ میں ہم نے قرآنِ پاک کی ان آیات کا مجموعہ پیش کیا تھا جن سے میلاد النبی(صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)   منانے کا جواز ملتا ہے۔
اب اس بلاگ میں ہم احادیثِ نبوی  کی روشنی میں یہ مطالعہ کریں گے کہ نبی اکرم  نے خود اپنی ولادت کا تذکرہ اور شکر کس طرح ادا فرمایا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ تعلیم دی کہ کسی نبی کی ولادت کے دن کو کس انداز میں منایا جاتا ہے۔

حدیث نمبر 1

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم) جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا آپ(صلی اللہ علیہ والیہ وسلم) نے دریافت فرمایا کہ یہ کہا ہے تو یہود نے جواب دیا کہ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی ہے پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا آپ(صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)نے فرمایا پس تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کا حق دار میں ہوں چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم) ہم نے اس دن روزہ رکھا اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا:
صحیح بخاری صه . بخاری صہ ۷۰۴/۲ کتاب الصیام – صیام یوم عاشورہ ۔ مسند امام احمد صہ

291/1مسند ابو یعلی موصلی صه 441/4

یہی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ذرا الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ ، صحیح بخاری كتاب المناقب باب اتيان اليهود النبی حین قدم المدینہ میں بھی ہے۔۔ یہی حدیث بالفاظ متقار بہ ، صحیح مسلم صہ 795/2 کتاب الصیام ، ابو داؤد صہ 326/2 ۔ ابن عبدالبر نے العميد لما فی الموطا من المعانی والا سانید حصہ 209/7پر بھی بیان کی ہے۔ حدیث شریف اپنے مدلول میں صریح ہے کہ جس دن اللہ تعالی کی نعمت ملے اس دن کو بطور یادگار منانا چاہئے، یہود نے تو اس دن کو یاد گار بنایا جس دن فقط انہیں پر رحمت ہوئی اور حضور(صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)نے منع نہیں فرمایا بلکہ خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا لیکن میلاد النبی(صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)  کا دن تو وہ عظیم دن ہے جس دن اللہ تعالی نے تمام جہانوں پر اپنا فضل و کرم فرمایا ہے تو پھر آپ کی ولادت با سعادت کا دن زیادہ حق دار ہے کہ اسے بطور یادگار منایا جائے۔

حدیث نمبر 2

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہود یوم عاشور کی تعظیم کرتے تھے

وَتَتَّخِذَهُ عَبْدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ  صُومُوا أَنْتُمْ:

اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے پس حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم) نے فرمایا تم اس دن روزہ رکھو۔

 صحیح مسلم صہ 796/2 کتاب الصيام – صحیح بخاری صہ 704/2 کتاب الصیام ۔

شرح معانی الآثار للطحاوی صه76/2

حدیث شریف بالکل واضح ہے کہ جس دن صرف ایک قوم پر مہربانی ہوئی اس قوم نے اس دن کو بطور عید منا یا آقا علیہ السلام نے منع نہیں فرمایا بلکہ خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے حکم فرمایا تو جس دن سارے جہانوں کی رحمت ملی یقیناً وہ دن بطور عید منانے کے زیادہ حق دار ہے۔ مگر یادر ہے کہ عید میلاد النبی ای (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم) کو عید کہنا فقط لغوی اعتبار سے ہے مسرت، خوشی وغیره

حدیث نمبر 3

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور ملی اسلام نے یہود سے روزے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا اور اس دن جو دی پہاڑ پر کشتی ٹھہری تو

نوح اور موسیٰ علیہما السلام نے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)نے فرمایا میں موسیٰ علیہ السلام کا زیادہ حق دار ہوں اور میں اس دن روزہ رکھنے کا زیادہ حق دار ہوں تو آپ (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)نے اپنے صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

مسند امام احمد ، ص 359/2۔فتح الباری، ص

247/4

جب یوم نوح علیہ السلام یوم موسیٰ علیہ السلام منایا جا سکتا ہے تو یوم میلاد النبی  (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)بدرجہ اولی منایا جا سکتا ہے۔

حدیث نمبر 4

حضرت ابو قتادة انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)سےپیر کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ مالی اسلام نے فرمایا:

ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ

صحیح مسلم شریف ، ص 819/2، کتاب الصیام، سنن الکبری بیہقی ، ص 286/4، سنن الکبری للنسائی، ص 146/2، مسند امام احمد ، ص 296/5، مصنف عبدالرزاق، ص 296/4

اسی روز میری ولادت با سعادت ہوئی اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے او پر قرآن نازل کیا گیا۔

یہ حدیث جلیل صحیح بھی اپنے مدلول میں صریح ہے کہ یوم میلاد النبی (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)کو خوشی کا اظہار کرنا نبی پاک (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)کا طریقہ مبارکہ ہے۔

حدیث نمبر 5

حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں ایسی قوم کو جانتا ہوں اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اس دن کا انتظار

کرتے اور اسے بطور عید مناتے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کون سی آیت تو کعب احبار رضی اللہ عنہ نے کہا الیوم اکملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتی و رضيت لكم الاسلام دینا ، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں پہچانتا ہوں کہ کس دن یہ آیت نازل ہوئی ۔ جمعہ اور عرفات کے دن وکنا کنا عيدان “ اور وہ دونوں ہماری عید کے دن ہیں۔

كرتے اوراسےبطور عيد منا توحضرت عمر فاروق رضى رضی اللہ عنہ نےفر ما ياكون سى آيت توكعب احبادررضی اللہ عنہ كہا:

ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗا

توحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمايا:

میں پہچانتا ہوں کہ کس دن یہ آیت نازل ہوئی ۔ جمعہ اور عرفات کے دن

وَهُمَا لَنَا عِيدَانِ

اور وہ دونوں ہماری عیدکے دن ہیں۔

(المعجم الاوسط للطبرانی، ص 253/1 ۔ فتح الباری، ص105/1۔ تفسیر ابن کثیر ، ص 14/2)
جس دن اکمال دین کی آیت حضور (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)پر نازل ہو اسے عید کے طور پر منایا جائے تو وہ جس دن سید العالمین محمد رسول الله (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم) خود تشریف لائے اس دن کو بطور عید کیوں نہیں منایا جا سکتا۔

حدیث نمبر 6

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم) نے جمعہ المبارک کے متعلق ارشاد فرمایا۔

ان هذا يوم عِيدَ جَعَلَهُ اللهُ لِلمُسلمين

بے شک یہ عید کا دن ہے جس کو اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے بنایا ہے۔

ابن ماجه كتاب اقامة الصلواة باب فى الزينة يوم الجمعہ حدیث نمبر 1098۔ ص، 349/1معجم الاوسط للطبرانی، ص 230/7، حدیث نمبر 7355

کئی احادیث میں فرمایا گیا ہے کہ یوم جمعہ کو بکثرت درود پڑھا کرو یہ تمہارے دنوں میں سے افضل دن ہے اس دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اس روزان کی روح قبض کی گئی اسی روز صور پھونکا جائے اور اسی روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو۔  
(سنن ابی داؤد ، ص 275/1۔سنن نسائی، ص 519/1۔ ابن ماجه ص 359/1)

تو جس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے یعنی یوم جمعہ کو تو عید کا دن ہو اور جس دن سارے نبیوں کے سلطان سارے جہانوں کی رحمت سید العالمین محمد رسول (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم) پیدا ہوئے وہ کیوں بطور عید نہیں منایا جا سکتا ہے۔

حدیث نمبر 7

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ

أن النبي عَى عَن نَفسِه بعد ما بـ د ما بعث بنيا

حضور (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)نے اعلان نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا

الاحادیث المختار ، ص 205/5۔ المعجم الاوسط للطبرانی ، ص 298/1۔ مند رویانی ، ص 386/2 سفن الکبریٰ بیہقی ، ص 300/9

اس حدیث کے متعلق علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عقیقہ دو بار نہیں کیا جاتا کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)کی ولادت با سعادت کے ساتویں روز آپ کے دادا محترم عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے کر دیا تھا، تو پھر آپ کا عقیقہ فرمانا، یہی احتمال ہے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)نے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کے لیے عقیقہ خود کیا اپنے رحمت اللعالمین ہونے اور امت کے مشرف ہونے کی وجہ سے اور اسی طرح ہمارے اوپر مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ والیہ وسلم)کے یوم ولادت با سعادت پر خوشی کا اظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات ادا کریں اور خوشی کا اظہار کریں۔

الحاوی للفتاویٰ، ص 196۔ حجتہ اللہ علی العالمین، ص237


یہ معلوماتی اور روحانی بلاگ حضرت سرکار پیر ابو نعمان رضوی سیفی صاحب کی ترتیب و تحریر کا نتیجہ ہے، جو جذبۂ اخلاص کے ساتھ امتِ مسلمہ کی دینی و روحانی رہنمائی فرما رہے ہیں۔اگر یہ مضمون آپ کے لیے مفید اور بصیرت افزا ثابت ہوا ہو تو براہِ کرم اس پر اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں، اور اسے اپنے دوستوں، اہلِ خانہ، اور دیگر احباب کے ساتھ شیئر کریں تاکہ یہ پیغام زیادہ سے زیادہ قلوب تک پہنچ سکے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس بلاگ کی یہ سلسلہ وار فہرست جاری رکھی جائے، تو نیچے کمنٹ باکس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top