اعداد کی روحانی حقیقت
صوفیانہ حکمت، قرآنی اشارات اور سائنسی اِنکشافات
تعارف:
جب میں نے اعداد کی دنیا میں غور کرنا شروع کیا، تو احساس ہوا کہ یہ محض گنتی کے ہندسے نہیں بلکہ حقیقت کے ایسے دروازے ہیں جو کائنات کے رازوں کی طرف کھلتے ہیں۔ اعداد نہ صرف ہماری روزمرہ زندگی میں استعمال ہوتے ہیں، بلکہ یہ اللہ کی تخلیق کے اُس حکیمانہ نظام کو ظاہر کرتے ہیں جو پوری کائنات میں کارفرما ہے۔جب دل کائنات کی خاموشی میں جھانکتا ہے، تو ایک نغمہ سنائی دیتا ہے۔ابن عربیؒ فرماتے ہیں: —اعداد کا نغمہ
“عدد، حقیقتِ واحد کی تجلیات میں سے ہیں، جو ہر شے کو اس کے مقام پر رکھ دیتے ہیں۔”
(الفتوحات المکیہ)
یہ وہی شعور ہے جو ہمیں قرآن میں ملتا ہے یعنی:
“ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا۔”ایک اور جگہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے ۔” جس نے سات آسمان تہہ بہ تہہ پیدا کیے۔ تم رحمان کی تخلیق میں کوئی بے ربطی نہ پاؤ گے۔”دوبارہ نظر اٹھا کر دیکھو، کہیں کوئی دراڑ نظر آتی ہے”
یہ آیات بتاتی ہیں کہ کائناتی نظام مکمل، ترتیب یافتہ اور حکمت سے بھرپور ہے۔جس کی گہرائی کو اعداد کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔
صوفیاء کرام کی نگاہ میں عدد محض ریاضیاتی علامت نہیں بلکہ حقیقتِ مطلقہ کی بازگشت ہے۔ “واحد” عدد سے لے کر “تسعۃ وتسعون” یعنی 99 تک، ہر عدد اسمائے الٰہی کے ایک نورانی پرت کا آئینہ دار ہے۔اعداد، باطن کی روشنی کی طرف سفر کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ ہمیں مخلوق کی ظاہری پرتوں سے نکال کر حقیقت کے نوری مرکز تک لے جاتے ہیں، جہاں نہ وہم باقی رہتا ہے نہ خودی کا پردہ۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیاء عدد کو “نفس شکن” علم کہتے ہیں، “الرحمن” کا عددی رمز 298، “الخبیر” 812 اور “الواحد” 19 بنتا ہے، جو صوفی تفسیر میں کائنات کے روحانی کوڈز کی ترجمانی کرتے ہیں۔جو انسان کو اس کی اصل بندگی کی طرف لے جاتےہے۔جہاں الفاظ خیالات اور تاویلوں کی آمیزش سے حقیقت کو ڈھانپ سکتے ہیں، وہیں اعداد اس پردے کو چاک کرتے ہیں، اور حقیقت کو سادہ، روشن اور خالص شکل میں ظاہر کرتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں علم، معرفت میں بدلتا ہے، اور بندگی، شعور میں۔
اعداد کی اہمیت کیا ہے؟
اعداد کا تعلق حقیقتوں کے جوہری اسرار سے ہے۔یہ مخلوق یا کسی حقیقت پر چڑھے ہوئے تمام ظاہری پردے ہٹا کر،اسے اُس کی اصل حقیقت اور جوہر کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم کسی حقیقت یا مخلوق کو اس کی سب سے بنیادی شکل میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ مالیکیول ہو، ایٹم ہو یا کوانٹم، تو ہماری سمجھ زیادہ درست، زیادہ شفاف اور قریب تر ہو جاتی ہے۔جتنا بنیادی اظہار ہوگا (مثلاً اکائی عدد کی نمائندگی)،اتنی ہی زیادہ دقت، سچائی اور معرفت حاصل ہوگی۔
جبکہ دو یا تین ہندسوں والے اعداد دراصل کئی پردوں یا پرتوں کی نمائندگی کرتے ہیں
جو حقیقت کو چھپا دیتے ہیں۔
سائنس کی دنیا میں بھی یہی ترتیب نظر آتی ہے۔کوانٹم فزکس ہمیں بتاتی ہے کہ ہر ذرہ ایک توانائی ہے، اور وہ توانائی عددی تناسبات میں بندھی ہوئی ہے۔کیمیائی کا پریوڈک ٹیبل ہو یا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا بائنری کوڈ سسٹم ہو سب کچھ عادارکے اصول پر قائم ہیں۔
مثلاً انسان جن عناصر سے بنا ہے، ان میں کاربن (6)، ہائیڈروجن (1)، آکسیجن (8)، اور نائٹروجن (7) بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر عنصر کی اپنی عددی شناخت ہے، جو اس کے خواص کو ظاہر کرتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعداد صرف گنتی کا ذریعہ نہیں، بلکہ علمِ حقیقت تک پہنچنے کی ایک کنجی بھی ہیں۔
قرآن کی روشنی میں:
“جس نے سات آسمان تہہ بہ تہہ پیدا کیے۔ تم رحمان کی تخلیق میں کوئی بے ربطی نہ پاؤ گے۔
دوبارہ نظر اٹھا کر دیکھو، کہیں کوئی دراڑ نظر آتی ہے؟”
(سورۃ الملک 67:3-4)
یہ آیات بتاتی ہیں کہ کائناتی نظام مکمل، ترتیب یافتہ اور حکمت سے بھرپور ہےجس کی گہرائی کو اعداد کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔
مخلوق کی سطحی درجہ بندی:ہر مخلوق کو مختلف سطحوں پر بیان کیا جا سکتا ہے
(Form)٭ظاہری جسم
(Elements of form)٭مادی عناصر
(Molecular Level)٭مالیکیول سطح
(Atomic Level)٭ایٹمی سطح
(Quantum Level)٭کوانٹم سطح
کے اسی وجہ سے تمام مخلوقات کو زیادہ درست(Quark, Light Reality)٭نوری سطح انداز میں عددی رموز کے ذریعے بیان کیا جا سکتاہے
ٹیکنالوجی اور اعداد کی حکمت:
اعداد کی ایک اور حیرت انگیز دنیا کمپیوٹر ٹیکنالوجی ہے،جس کی بنیاد ہی اعداد پر مشتمل کوڈنگ پر ہے۔یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دکھا رہا ہے کہ:
“اعلیٰ ترین کوڈنگ سسٹم، درحقیقت اعداد پر مشتمل ہوتا ہے”
کیونکہ یہ نظام فرشتوں کے علم سے منسلک ہے
اعداد: نفس کے پردوں کو ہٹانے والے
اعداد مخلوق کو اس کے نفس، وہم، اور خام خیالی سے پاک کر کےاسے اس کی اصل بندگی کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔
جبکہ حروف، الفاظ بناتے ہیں،الفاظ سے جملے اور جملوں سے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔
یہاں نفس آسانی سے دخل دیتا ہے،کیونکہ خیالات میں تخیل، تاویل اور خودی کی آمیزش آ جاتی ہے۔اس کے برعکس :اعداد تمام سطحی تہوں کو ہٹا کر اصل حقیقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
اعداد کی روحانی معنویت ایک ایسا دروازہ ہے جو انسان کو مادّی و غیر مادّی حقیقتوں کے مابین موجود باریک پردے سے آگے لے جاتا ہے۔ یہ علم ہمیں نہ صرف کائنات کے نظم و ضبط کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ اپنے نفس کی تہوں کو چیر کر حقیقتِ عبدیت تک پہنچنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ اعداد وہ ساکت پیغام ہیں جو خاموشی سے بولتے ہیں، اور ہر وہ طالبِ حقیقت جو ان کی زبان کو سمجھ لے، وہ کائناتی دانش، نورانی توازن اور روحانی بصیرت کی اس دنیا میں داخل ہو جاتا ہے جہاں معرفت، عدد کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو اپنی اصل پہچان، اور بندگی کی سچی منزل میسر آتی ہے۔

