اسلام ایک سچا مذہب کیوں ہے ؟
آج دنیا میں 2.3 ارب عیسائی، 2.0 ارب مسلمان، 1.1 ارب ہندو، 500 ملین بدھ مت کے ماننے والے، اور 15 ملین یہودی ہیں، اور ان کے علاوہ کل 4300 مذاہب موجود ہیں۔ ایسے میں کچھ لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں:
٭اتنے زیادہ مذاہب میں سے میں صرف اسلام کو ہی کیوں مانوں؟
٭ہمیں کیسے پتہ چلے کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے؟
٭کیا ہم عقلی طور پر اس کو ثابت کر سکتے ہیں؟
ہم اس کا جواب ایک نہایت دلچسپ تکنیک کے ذریعے دیں گے جسے فلسفی ڈیکارٹ نے ایجاد کیا تھا، اور اسے کارٹیزین شک کہا جاتا ہے۔
اس کا خلاصہ یوں ہے ۔
تصور کریں کہ آپ کے پاس سیبوں سے بھری ایک ٹوکری ہے۔ آپ ٹوکری میں ہاتھ ڈال کر ایک اچھا سیب نکالتے ہیں۔ لیکن جب دوبارہ ہاتھ ڈالیں تو اس بار ایک خراب سیب نکلتا ہے۔ ایسے میں ایک ایک کر کے سیب نکالنے اور خراب سیبوں کو پھینکنے کا عمل جاری نہ رکھیں۔ یہ جانچنے میں وقت ضائع نہ کریں کہ کون سا سیب اچھا ہے اور کون سا خراب۔ اس کے بجائے، پوری ٹوکری خالی کریں اور پھر صرف اچھے سیب واپس ٹوکری میں ڈالیں۔
آئیے اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مسئلے کو حل کریں:
میرا مطلب ہے، کیا ہم 4300 مذاہب کو ایک ایک کرکے دیکھ سکتے ہیں؟ میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
تو پھر آئیے کائنات میں موجود نشانات کو عقل اور منطق کے ذریعے دیکھتے ہیں۔ ان کے ذریعے یہ طے کرتے ہیں کہ کسی سچے مذہب میں کون سی شرائط موجود ہونی چاہئیں۔ یہ نشانات ہمیں اس سوال کا سیدھا جواب دیں گے کہ اسلام ہی سچا مذہب کیوں ہے؟
اب، جب آپ ایک عمارت بناتے ہیں تو سب سے پہلے بنیاد ڈالی جاتی ہے، درست؟
اس عمل میں کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح، اس مسئلے کے لیے ہمیں بنیاد سے شروع کرتے ہوئے مرحلہ وار چھانٹی کرنی ہوگی۔
لہذا، ہمارے فلٹرز یہ ہوں گے:
کیا خدا کا وجود ہے؟
کیا کسی مذہب کی ضرورت ہے؟
ظاہر ہے، اور اگر مذہب کی ضرورت ہے، تو کیا ایک مقدس کتاب اور نبی ہونا چاہیے؟
کیا کوئی مقدس کتاب اور نبی موجود ہیں؟
سب سے پہلے، آئیے عمارت کی بنیاد کو دیکھتے ہیں۔
یہ سوال ہے کہ کیا خدا کا وجود ہے یا نہیں۔
آپ شاید اس بات کو ثابت کرنے کے مختلف طریقوں کے بارے میں سوچ رہے ہوں، لیکن آج ہم اس سوال کا جواب کائنات کے ذریعے تلاش کریں گے، جس کا ہم سب مشاہدہ کرتے ہیں۔
اب، میں جو مثال دینے جا رہا ہوں اسے سمجھنے کے لیے غور سے پڑھیں۔
فزکس کے مطابق، اگر کوئی کام انجام دیا گیا ہے تو اس کے لیے ایک قوت کا ہونا ضروری ہے جو وہ کام انجام دے سکے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی عمل انجام دیتا ہوا نظر آئے، اس کے پاس اس کام کو انجام دینے کے لیے مطلوبہ طاقت ہونا ضروری ہے۔
مثال کےطورپر:
اگر میں دیکھوں کہ ایک بچہ جہاز کو کھینچ رہا ہے، تو میں فوراً اس عمل کے پیچھے کی سچائی کوتلاش کروں گا، کیونکہ بچہ کبھی بھی یہ کام نہیں کر سکتا۔ میں یہ کہوں گا کہ شاید کوئی میکانیکی نظام جہاز کو حرکت دے رہا ہے، یا کچھ اور۔
یہاں تک کہ اگر میری آنکھیں یہ دیکھیں کہ بچہ ہی جہاز کو کھینچ رہا ہے، تو میرا دماغ فوراً مداخلت کرے گا اور کہے گا، ‘بچے کے پاس جہاز کو کھینچنے کی طاقت نہیں ہے۔’
میں فوراً اس اصل قوت کو تلاش کرنا شروع کروں گا جو بچے کے پیچھے موجود ہے۔ اور یہی بات منطقی بھی ہےاور درست
بھی؟
اسی طرح ایک اور مثال دوں:
جب ہم کائنات کو دیکھتے ہیں، تو مثال کے طور پر، ہم گائے کو دودھ پیدا کرنے والے جانور
کے طور پر دیکھتے ہیں۔ گائے کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ جو دودھ بناتی ہے اس میں امائنو ایسڈز کیا ہیں، اور نہ ہی اسے یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ دودھ پینے والوں کے جسم کی ضروریات کیا ہیں۔ لیکن یہ بالکل ایسا دودھ پیدا کرتی ہے جو ان کی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ دودھ بنانے کے لیے ایک ایسی چیز استعمال کرتی ہے جو بظاہر بالکل غیر متعلقہ لگتی ہے: گھاس۔
دوسری طرف، ہم ایک زہریلی مکھی کو دیکھتے ہیں جو دنیا کی سب سے میٹھا شہد بنانے کا کام کرتی ہے۔ شہد بناتے وقت مکھی کو اس میں موجود معدنیات کا علم نہیں ہوتا۔ نہ ہی مکھی کا جسم یا اس کے خلیے یہ جانتے ہیں کہ وہ شہد کھانے والوں کے جسم کی ضروریات کیا ہیں۔ لیکن یہ ایسا شہد پیدا کرتی ہے جو ان کے لیے شفا کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
ہم اپنی نظرکو ایک اور مثال کی طرف لے کر چلتے ہیں:
ہم درخت کو ایک ایسا عمل کرنے والا سمجھتے ہیں جو خشک، بے ذائقہ، اور سیاہ مٹی سے خوش ذائقہ، میٹھے، رنگین پھل بناتا ہے۔ لیکن اس درخت کا بیج یہ نہیں جانتا کہ وہ ذائقہ مجھے کس قدر خوشی دے گا۔ یہ نہیں جانتا کہ وہ خوشبو میری ناک کو کتنی پسند آئے گی۔ یہ نہیں جانتا کہ میری آنکھوں کو کیا پسند آئے گا۔ یہ نہیں جانتا کہ میرے جسم کی کیا ضروریات ہیں۔ جبکہ یہ صرف ایک سادہ بیج تھا جس میں نہ ذائقہ تھا نہ خوشبو، اس سے سینکڑوں پھل نکلے جن کا ذائقہ میرے منہ کے لیے مناسب تھا، خوشبو میری ناک کے لیے مناسب تھی، خوبصورتی میری آنکھوں کے لیے دلکش تھی، اور جسم کے لیے بے شمار فوائد فراہم کیے۔بالکل اس لمحے، میرا دماغ فوراً کام میں آتا ہے اور مجھے بتاتا ہے کہ یہ چیزےجو یہ سب کچھ کر رہی ہیں، ان کے پاس ان کاموں کے لیے ضروری مہارت نہیں ہے۔ میرا مطلب ہے، یہ بہت دلچسپ ہے! کچھ چیزیں کسی کو وہ دیتی ہیں جو ان کے پاس نہیں ہوتا۔ لیکن عام طور پر، یہ ناممکن ہے۔ آئیں ایک مثال کے ذریعے سے سوچتے ہیں۔
فرض کریں کہ میرے ہاتھ میں ایک کپڑا ہے اورمیں پردےکے پیچےہوںآپ مجھے نہیں دیکھ سکتےہیں۔ یہ پردہ ایک قلم اٹھاتا ہے اور یہاں ایک نظم لکھتا ہےاورتصاویر بناتا ہے۔ سب لوگ کہیں گے کہ یہ قلم دراصل اس پردے کے ذریعے حرکت کر رہی ہے۔لیکن جو منطقی بات ہے وہ یہ سوچنا ہے کہ اس کپڑے کے پیچھے، اس ظاہری سبب کے پیچھے ایک طاقت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اس مثال میں، یہ تمام کام جو ہم نے بیان کیے ہیں، ایک خالق کو ظاہر کرتے ہیں جو ان سب پر پردے کے پیچھے قابو پاتا ہے۔ اگر ہم ان مثالوں کو مکمل طور پر سمجھنے میں کامیاب ہوں، تو ہم اپنے دماغ کی آنکھوں سے یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک خالق ہے، جو ہمیں جانتا ہے، جو پردوں کے پیچھے عمل کرتا ہے، اور یہ چیزیں ہماری ضروریات کے مطابق وقوع پذیر ہوتی ہیں۔
اگر ہم اپنی عمارت کی بنیاد کی جانب بڑھیں
تو ہمیں معلوم ہوگا کہ حقیقت کے مطابق کئی ایسے مذاہب خارج ہو جائیں گے جو اس حقیقت کے برعکس ہیں جیسے بدھ مت اور جین مت اور فلسفیانہ عقائد جیسے atheism، agnosticism، naturalism اور scepticism ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہونا چاہیے، چاہے آپ اسے جو بھی کہیں۔
اب آئیں ہم اپنے عمارت کی بنیاد کی دوسری طرف بڑھیں۔
کیا مذہب کی ضرورت ہے؟
یہاں ہم منطق کے علم سے موازنہ کا طریقہ استعمال کریں گے۔ آئیں، ایک اور طریقے سے دیکھیں۔ جب ہم اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں، تو یہ اصول ہر وقت، ہر جگہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر ہمارے سامنے کوئی کام یا مصنوعہ ہے، تو وہ شخص جو اسے بنایا ہے، اسے سب سے بہتر جانتا ہے۔ اسی طرح جب بھی کوئی اس کے بارے میں بات کرے گا، سب سے پہلے اس کا حق رکھنے والا وہی شخص ہوگا جس نے اسے بنایا ہو۔ مثلاً، جب میں ایک فون خریدتا ہوں، تو اس کے ساتھ ایک یوزر مینوئل آتا ہے، اس میں، ایک طرح سے، تیار کرنے والی کمپنی مجھ سے کہتی ہے، ہم نے یہ فون بنایا ہے۔ پھر منطقی طور پر، ہم اسے سب سے بہتر جانتے ہیں، حتیٰ کہ سب سے چھوٹی تفصیل تک۔ اس مینوئل کو شامل کرکے، ہم اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ سادہ مصنوعات میں بھی یہ ہوتا ہے۔ پھر، ہمارا دماغ سوال کرتا ہے کہ جب سادہ کاموں میں بھی یوزر مینوئل ہوتا ہے، تو کیا یہ ممکن ہے کہ کائنات کا خالق، جس نے انسانوں کو پیدا کیا اور انہیں دنیا میں بھیجا، ایسا یوزر مینوئل نہ بھیجا ہو جو ان کی رہنمائی کر سکے؟ تاریخ بھر میں، تمام انسانیت یہی سوال پوچھ رہی ہے:
میں کون ہوں؟
میں کہاں سے آیا ہوں؟
میں کہاں جا رہا ہوں؟
میرا اس زندگی میں مقصد کیا ہے؟
کیا یہ ممکن ہے کہ خالق مجھے ایک دماغ دے تاکہ میں یہ سوالات پوچھ سکوں، لیکن ان کے جوابات پر مشتمل پیغام نہ دے؟ یقیناً، وہ ہمیں گمراہ یا بے خبر نہیں چھوڑے گا۔ وہ ہمیں اپنی مرضی سے آگاہ کرے گا، اور ایک رہنمائی کتاب بھیجے گا جو راستہ دکھائے۔ پھر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس مذہب کی ہم تلاش کر رہے ہیں، وہ کسی کتاب پر مبنی ہونا چاہیے۔ اس میں ایک رہنما اور ایک مینوئل ہونا ضروری ہے۔
عمارت کی بنیاد کی دوسری طرف کی حقیقت کے ساتھ، ایسے مذاہب بھی خارج ہوجائیں گے ۔
جیسےکہ شینتو ازم، لفت ازم، پینتھی ازم، نیہل ازم
تو، اگر میں آپ سے کوئی سوال کروں جیسے،
کیا آپ کے خیال میں صرف کتاب ہی کافی ہے؟
ہمیں اسکولوں میں کتابیں دی جاتی ہیں۔ لیکن کیا یہ کافی ہے؟ کیا آپ کو اس کتاب کو پڑھانے کے لیے استاد کی ضرورت نہیں ہے؟ درحقیقت، ہمیں ایک ایسا استاد چاہیے جو صرف کتاب نہ پڑھائے، بلکہ انہیں کلاس روم میں جمع کرے اور ان کی توجہ اس کتاب کی طرف مرکوز کرے۔ چاہے کچھ طلباء ایسے ہوں جو سننا نہ چاہیں۔ زیادہ یا کم، آپ کو اس مثال سے میری مراد سمجھ آ گئی ہوگی۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک استاد جو کتاب کو مثالوں اور کہانیوں کے ذریعے سمجھاتا ہے، جو کلاس روم میں نظم وضبط قائم کرتا ہے؛ اسی طرح ہمیں جو مذہب چاہیے وہ بھی ایک رہنمائی کرنے والے رہنما، ایک پیغمبر کی ضرورت ہے۔
ہم اس طرح بھی سوچ سکتے ہیں:
ہر شعبے میں نظریاتی علم ہوتا ہے اور اس کا عملی استعمال بھی ہوتا ہے۔ کتاب میں لکھا گیا مواد نظریاتی علم ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی کی ضرورت ہے جو دکھائے کہ اسے عمل میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور حقیقی زندگی کی صورتحال میں کیسے لاگو کیا جا سکتا ہے۔ جب کوئی شخص پوچھتا ہے، “میں اپنی زندگی کے مقصد کے مطابق کیسے جینا سیکھ سکتا ہوں؟ اپنی زندگی کے مینوئل کے مطابق تو اسے ایک رول ماڈل کی ضرورت ہوتی ہے جو دکھائے کہ یہ کیسے کرنا چاہیے تاکہ وہ خود بھی یہ کر سکے۔ تو، اگر ہم اپنے استاد کے مثال پر واپس آئیں، تو صرف ریاضیاتی نظریات جاننا کافی نہیں ہے۔ یہ دیکھنا اور سیکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کا استعمال اور اطلاق کیسے کیا جاتا ہے۔
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ یہ زیادہ منطقی ہے کہ ایک پیغمبر قیادت کے مقام پر ہو؟ درحقیقت، اس کی مثالیں جانوروں کی دنیا میں بھی موجود ہیں۔
مثال کے طور پر:
جب آپ شہد کےچھتےکو دیکھتے ہیں، تو آپ ایک ایسی کالونی دیکھتے ہیں جو ایک کمیونٹی کے طور پر زندگی گزارتی ہے اور ایک مشترکہ مقصد کی خدمت کرتی ہے۔ ایک ملکہ مکھی کو اس معاشرے کا رہنما مقرر کیا گیا ہے۔ یا، اگر آپ ایک چیونٹی کی کالونی کا دورہ کرتے ہیں جو ایک مشترکہ مقصد کی خدمت کرتی ہے، تو آپ وہاں ملکہ چیونٹی کو رہنما کے طور پر دیکھیں گے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ، جو ان گروپوں کو رہنما اور رہنمائی کے بغیر نہیں چھوڑتا، انسانوں کو بغیر کسی رہنما کے چھوڑ دے؟ ہم انسانیت کی بات کر رہے ہیں۔ سب سے قیمتی جاندار۔
کیونکہ چیونٹیوں اور مکھیوں سے آگے، اللہ نے انسان کی چھوٹی زبان کے لیے سو ذائقے تخلیق کیے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ انسانوں کو بے مقصد بھٹکنے کے لیے چھوڑ دے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ انہیں رہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے بغیر چھوڑ دے؟ اگر ہم نے اس مثال کو بھی مکمل طور پر سمجھ لیا ہو، تو
اس تیسرے فلٹر کے ساتھ، ہم نے ایسے مذاہب کو خارج کر دیا ہے جیسے ہندومت، کاؤڈازم، اور دروز ایمان۔
جو کسی پیغمبر پر ایمان نہیں رکھتے۔ میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ جس مذہب کی ہم تلاش کر رہے ہیں، اس میں پیغمبروں کے معجزات کا ذکر بھی ضروری ہے۔
ہم نے شروع میں کہا تھا کہ دنیا میں 4300 مذاہب ہیں، جب ہم ان تین معیارات کو لگاتے ہیں اور ان تمام مذاہب اور فلسفیانہ عقائد کو فلٹر کرتے ہیں جن کی جڑیں ہم تک پہنچ سکتی ہیں، تو ہمارے پاس صرف تین مذاہب بچتے ہیں۔
(عیسائیت، یہودیت اور اسلام) ان سب میں خالق کا تصور، ایک کتاب اور نبوت کا تصور موجود ہے۔
اب، میں چاہتا ہوں کہ آپ اس پر توجہ دیں۔
اس حقیقت کا کہ تین مذاہب تمام فلٹرز سے گزر کر بچتے ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی بنیاد سچائی پر ہے۔ جب ہم یہودیت کو دیکھتے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے مرکزی شخصیت حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ عیسائیت میں مرکزی شخصیت حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں
اگرچہ ان دونوں عظیم پیغمبروں کی تعلیمات اب ان دونوں مذاہب میں بگڑ چکی ہیں، لیکن جو کچھ انہوں نے ابتدائی طور پر تعلیمات دیں اس میں بے حدسچائی تھی۔ ان دونوں مذاہب کی مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ دونوں حضرت محمد ﷺ کو سچے پیغمبر کے طور پر تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری پیغمبر ہیں اور حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیہم السلام بھی اللہ کے پیغمبر تھے۔ اس حقیقت کی بنیاد پر، ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ حضرت محمد ﷺ واقعی اللہ کے پیغمبر ہیں، تو اسلام کو واحد سچا مذہب ثابت کیا جائے گا، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی طرف سے ایک ہی مشترکہ پیغام پہنچایا۔
جی ہاں، اسی نقطے پر اس کے بے شمار دلائل ہمارے ذہنوں میں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان دلائل میں سے سب سے اہم دلیل خود حضور ﷺکی زندگی ہے ۔ تصور کریں، وہ اپنی اعلان نبوت سے پہلے 40 سال تک اپنے لوگوں کے درمیان زندگی بسر فرماچکے تھے۔ اپنی اعلان نبوت کے 23 سالوں میں، وہ دوبارہ انہی لوگوں میں سب سے آگے تھے۔ اور ان کی ہر حرکت پر نظر رکھی جا رہی تھی۔ ہم اس شخص کو دیکھنے جا رہے ہیں کہ کیا وہ (مَعَاذَ اللّٰہ) جھوٹا تھا یا نہیں۔ منطقی طور پر، ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں درجہ اور حیثیت میں، وہ ایک دوسرے کی نقل کر سکتے ہیں۔ لیکن جتنا کسی شخص کی حیثیت دوسرے سے نیچے ہوگی، اتنا ہی اس کی نقل کرنا مشکل ہوتا ہے۔
مثلاً، ابن سینا کو لیں، جنہیں مغرب میں ایوِسینا کہا جاتا ہے۔ ایک طبی ذہانت جس کی کتابیں صدیوں سے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے، ایک جاہل شخص کس حد تک اس کی نقل کر سکتا ہے، ایوِسینا بننے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ اگر وہ کسی شہر میں جائے اور کہے، “میں ایوِسینا ہوں،” تو کتنے لوگ اسے یقین کریں گے؟ تھوڑی دیر بعد، جو لوگ اس کے ساتھ وقت گزاریں گے، وہ اس کے رویے اور اعمال سے سمجھ جائیں گے کہ وہ جھوٹا ہے، درست ہے؟ ایک دھوکہ دہی کرنے والا اور غریب شخص ایک سلطان کی نقل نہیں کر سکتا۔ تھوڑی ہی مدت میں اس کے بارے میں سب کچھ یہ ظاہر کرے گا کہ وہ ایک فراڈ ہے
لیکن وہ لوگوں کو کتنے عرصے تک دھوکہ دے سکتا ہے؟ تھوڑی ہی دیر بعد، اس کا جھوٹ ایک نہ ایک طریقے سے بے نقاب ہو جائے گا۔ تو کیا ہم اس منطقی موازنہ کو لے کر حضرت محمد ﷺ پر لاگو کر سکتے ہیں؟ وہ مذہب جو آپ ﷺ لائے، اس میں آپ کے بارے میں یہ کہا گیا ہے: “وہ شخص ہیں جنہیں اللہ نے بے شمار لوگوں میں سے ایک پیغمبر بنایا۔ اللہ کے آخری پیغمبر (عزوجل) کو تمام انسانیت کے لیے بھیجا گیا۔ وہ لوگوں میں سب سے اعلیٰ اور سب سے زیادہ اخلاق والے ہیں۔”
اب یہاں دو امکانات ہیں۔ یا تو یہ سچے ہیں، یا مَعَاذَ اللّٰہ، وہ جھوٹے ہیں۔ لیکن آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص انہیں جھوٹا کہتا ہے، وہ انہیں ایک معمولی جھوٹا نہیں سمجھ سکتا۔ آپ کو انہیں تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹا تسلیم کرنا پڑے گا کیونکہ انہوں نے اتنی بلند مقام پر ہونے کا جھوٹ بولا۔ آپ کو انہیں ایسا شخص ماننا پڑے گا جو اللہ کو نہیں مانتا، جو نہیں ڈرتا کہ اللہ اسے عذاب دے گا، اور اللہ کے نام پر جھوٹ بولتا ہے۔ فرض کریں کہ انہوں نے ایسا کیا۔ کیا وہ یہ سب 23 سال تک برقرار رکھ سکتے تھے؟
ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو یہ سمجھتے ہوں کہ پیغمبر ﷺ چند لوگوں سے ہی رابطے میں تھے۔ لیکن یہ بات بالکل درست نہیں ہے۔ اپنی اعلان نبوت کی زندگی کے دوران، آپ کے ارد گرد موجود ہزاروں لوگوں نے آپ کےہر پہلو کو ایک ایک کرکے دیکھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کس ہاتھ سے کھانا کھاتے تھے، اور جب کسی جگہ میں داخل ہوتے تو پہلے کون سا پاؤں رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ اپنے ناخن کس ترتیب سے کاٹتے تھے۔ میرا مطلب ہے، انہوں نے آپ کا اتنی تفصیل سے معائنہ کیا کہ تاریخ میں کوئی اور شخص ایسا نہیں ہے جس کا اتنے گہرائی سے معائنہ کیا گیا ہو۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اگر انہوں نے آپ میں کوئی تضادات یا خامیاں دیکھی ہوتیں، تو وہ آپ کے ساتھ کھڑے رہتے اور یہ ساری مشکلات برداشت کرتے؟ بالکل نہیں۔ اس کے علاوہ، جو لوگ آپ کا معائنہ کر رہے تھے، وہ صرف مومن نہیں تھے۔ جن لوگوں نے آپ کی نبوت کا انکار کیا، وہ بھی آپ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ آپ اعلان نبوت سے پہلے بھی ان کے درمیان تھے، نہ کہ صرف اس کے بعد۔ آپ ان ہی میں پیدا ہوئے اور پرورش پائی۔ آپ غیر نہیں تھے۔ وہ آپ کے بارے میں سب کچھ جانتے تھے۔ وہ آپ پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہا اعلان نبوت سے پہلے ہی آپ کو دو القابات دیے ،”صادق” جو ”سچے کے ہیں”، “الامین” جو “امانت دار” کے معنی میں ہے۔
سب نے اتفاق کیا کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے اور وہ کتنے بلند اخلاق والے تھے۔ وہ اس بات پر اتنے پُر اعتماد تھے کہ جو لوگ بعد میں آپ کے دشمن بن گئے، وہ بھی اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھتے تھے۔ وہ نہ تو آپ میں نبوت سے پہلے اور نہ ہی بعد میں کوئی خامی پا سکے۔ جو واحد بات انہوں نے خامی کے طور پر پیش کی، وہ یہ تھی کہ آپ ﷺکو جادوگر، مجنوں کہہ کر بہتان لگایا، اور کچھ نہیں۔
اسی طرح، ان سے پہلے کسی بھی پیغمبر کے ساتھ یہی کہا گیا تھا: “جادوگر یا مجنوں!” {51:52}
جو شخص جھوٹ بولنے جا رہا ہو، اس کو اس سے کوئی دنیوی فائدہ تو ہونا چاہیے، ٹھیک ہے؟ لیکن جو کچھ آپ ﷺ کرتے تھے، اس میں آپ کے ﷺلیے کوئی فائدہ نہیں تھا۔ کفار مکہ ہمیشہ آپ ﷺ کی تاک میں رہتے تھے۔وہ ہمیشہ ستاتے رہے،آپ ﷺکی راہ میں کانٹے بچھاتے۔طرح طرح کےجبر و ظلم کرتے،انہوں آپ ﷺ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ۔لیکن ان سب کے باوجود آپ ﷺ نے ثابت قدمی کا مظاہرہ فرماکر اپنی امت کو استقامت کا درس دیاآپ ﷺ اپنی امت کو مضبوط متوکل بنانا چاہتے تھے۔آپ ﷺ نے بتقضائے بشریت حالات کامقابلہ ثابت قدمی سے فرماکر اپنی محبوب امت کو ثابت قدمی اور یقین اکبر جیسی عظیم دولت عطافرمائی۔آپ سرکار دوجہاںﷺ کئی دنوں تک روزے رکھتے ۔ام المؤمنین وام المسلمین زوجۃ النبی ﷺبنت الصدیق الاکبر رضی اللہ عنہ سیدہ طیبہ طاہرہ عابدہ زاہدہ حضرت عائشۃ الصدیقۃ الکبریٰ رضی اللہ تبارک وتعالیٰ عنہا وسلام اللہ علیہافرماتی ہیں کہ، کبھی کبھی آپ ﷺکے گھر میں دو ماہ تک کھانا نہیں پکتاتھا۔ آپﷺ کھجوریں جیسی چیزیں تناول فرماتے تھے۔” {صحیح بخاری: 6459}
آپ سیدنا و مولانا ﷺ نےاپنے اس پیارے اور نرالے عمل سے اپنی لاڈلی اور پیاری امت کو صبر اور شکر کاسبق عطا فرمایا
آپ ﷺدیر رات تک نماز پڑھتے ہیں۔ تہجد کی نماز کیا ہے؟ کیا یہ نیند سے اٹھ کر رات کے آخری تہائی حصے میں نماز پڑھنا نہیں ہے؟ مسلمانوں کے لیے یہ نماز سنت ہے، optional۔ لیکن رسول اللہﷺ کے لیے یہ فرض، واجب تھی۔ وہ رات کے اُس وقت میں جب کوئی نہیں دیکھتا، اپنے آپ کو اتنی محنت کیوں دیتے؟ جھوٹ کے لیے؟ وہ ایک دین کی پیروی کرتے ہیں جس کے لیے آپ ﷺن نے 23 سال تک تبلیغ فرمائی، اور اس کو سب سے بہتر طریقے سے اپنانا، عبادت کرنا، اور سب سے زیادہ احتیاط کے ساتھ گناہوں سے بچنا۔ کیا دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا ان خصوصیات کا ذرا بھی حامل ہو سکتا ہے؟ اس سب کا کیا فائدہ ہے؟ کیا وہ یہ سب شہرت، مال، یا عورتوں کے حصول کےلیے یہ عظیم کام سرانجام دےرہے ہیں؟ یہ سب مخالفین کی طرف سے پیش کیا گیا، اور جو جواب آپ ﷺ نے دیا وہ ہمیشہ ایک ہی تھا۔
اگر تم میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دو، تو بھی میں اس مقصد کو نہیں چھوڑوں گا۔” پھر آپ ﷺ فرماتے ہیں، “میری جدوجہد کسی دنیاوی فائدے کے لیے نہیں ہے۔ اگر تم مجھے صرف یہ چیزیں ہی نہیں، بلکہ ساری دنیا، یہاں تک کہ چاند اور سورج بھی دے دو، تو بھی میں نہیں چھوڑوں گا۔
آپ ﷺ نے اپنی ساری عمر ان کفار کے طعن وتشنیع کا صبر وتحمل کے ساتھ ثابت قدمی کا مظاہرہ فرمایا۔ آپ ﷺکو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ شہید کرنےکی ناکام کوششیں کی گئیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہوئیں۔ اور آپ ﷺ تریسٹھ برس کی عمر میں ظاہری طور وصال فرماگئے۔، تو پھر وہ یہ سب کیوں برداشت فرماتے؟ جھوٹ کے لیے؟ وہ پتھر کھانے، گالیوں اور توہین کو کیوں برداشت فرماتے؟ بہت ساری چیزیں آپ کی نبوت کے ثبوت کے طور پر گنی جا سکتی ہیں، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کی اپنی زندگی، آپ کا طرزِ عمل اس بات کا بہترین ثبوت ہے کہ آپ ﷺ واقعی نبی ہیں۔
جیسا کہ ہم نے آغاز میں کہا تھا، ۔ اگر ہم سے پوچھا جائے، “کیا ایسا شخص جھوٹا ہے، یا وہ شخص جو اس کو جھوٹا کہتا ہے، وہ خود جھوٹا ہے؟” کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس سوال کا جواب دینے کی کوئی ضرورت ہو گی؟ جب ہم ان تمام باتوں کا تجزیہ کرتے ہیں، تو ہم اس حقیقت تک پہنچتے ہیں جس کی ہم ساری زندگی تلاش کر رہے تھے۔
یعنی، جو خالق ہم تلاش کر رہے ہیں وہ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) ہیں۔
جو نبی ہم تلاش کر رہے ہیں وہ نبی اکرم ﷺ ہیں۔
جو ہم کتاب تلاش کر رہے ہیں وہ ہے قرآن مجید،
یاد رکھیں جو ہم نے آغاز میں پوچھا تھا۔ 4300 مذاہب میں سے اسلام کیوں؟
یہ ہے وہ راستہ۔