اسلام اور جدید دنیا
اسلام اور جدید دنیا کی بحث ہمیں اپنے اندر کی حقیقتوں کو جانچنے اور اپنے اعمال کو پرکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ جدت جہاں ایک طرف اپنے ساتھ آسانیاں لے کے اتی ہے اور دوسری طرف نئے مسائل کو جنم بھی دیتی ہے۔ عالم حضرات پہلے ان سے جنم لینے والی مسائل پر غور کرتے ہیں اور بعد میں اس کی سہولیات پر نظر ڈالتے ہیں اور اخر کار مجبوری میں ایسےاپنا لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کے منفی اثرات کو عوام الناس پر حائلہ ہونے دیں۔ اسلام ہمیں موٹڈنائز ہونے سے نہیں روکتا بلکہ ہمیں خود ترغیب دیتا ہے کہ اپنے حال کو بہتر کرو ں اور غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ آج کی دنیا میں، جہاں مادیت پرستی، تیز رفتار ترقی، اور اپنی ذات میں گم ہو جانے کا رجحان ہے، اسلام ہمیں سکون، سچائی، اور اعلیٰ اخلاق کا راستہ دکھاتا ہے۔ ہم اپنی زندگیوں میں چاہے جتنا بھی آگے بڑھ جائیں، حقیقی کامیابی وہی ہے جو دلوں کو اللہ کی طرف مائل کرے اور ہمیں اپنی کوتاہیوں کا ادراک دلائے۔ مثلن : اگر کوئی تجارت کر رہا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ جھوٹ نہیں بولے گا تو اس کا مال نہیں بکے گا ،اگر کوئی دکاندار ہے تو وہ ناپ تول میں کمی کرے گا، اگر کوئی سیاستدان ہے تو وہ جھوٹے کرے گا اور بعد میں مکر جائے گا، ۔اسلام کے پیغام کی روشنی میں ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم اپنے عہد میں کس حد تک ایمان اور اخلاق کے اصولوں پر قائم ہیں اور کہاں ہم لاپرواہی اور خود غرضی کا شکار ہو چکے ہیں۔
جدید تہذیب میں اسلام کی تاریخی شراکت
اسلامی تہذیب نے علم، سائنس، طب، ریاضی، فلسفہ، اور فنون لطیفہ کے میدان میں جو شراکتیں دی ہیں، ان کا اثر آج کی جدید دنیا میں ہر جگہ محسوس ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدا سے ہی علم کو اہمیت دی گئی، بغداد کا دارالحکمت اور قرطبہ کی یونیورسٹیاں صدیوں تک علم کا گہوارہ رہیں۔ الخوارزمی نے الجبرا کی بنیاد رکھی، ابن الہیثم نے روشنی اور بصارت پر تحقیق کی، اور ابن سینا کی “القانون فی الطب” طب کی دنیا میں انقلاب لانے والی کتاب بنی۔ اسلامی فلسفے نے مغربی نشاۃ ثانیہ پر گہرے اثرات چھوڑے اور ابن رشد اور الفارابی جیسے علما نے سوچ کو ایک نئی سمت دی۔ اسلامی فن تعمیر اور خطاطی نے بھی دنیا بھر میں ایک مخصوص اور انوکھا انداز متعارف کروایا، جس کی جھلک آج بھی ہمیں عظیم الشان مساجد اور عمارتوں میں نظر آتی ہے۔
اسلام کی یہ شراکتیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ اسلامی تہذیب نے نہ صرف اپنے عہد میں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک عظیم ورثہ چھوڑا ہے۔ آج ہمیں اسی اسلامی عزم، علم اور حکمت کو اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم مستقبل کی ترقی میں بھی اپنی بنیادوں پر قائم رہ کر دنیا کے لیے کچھ نیا کر سکیں۔ یہ ماضی کا ورثہ ہمیں اس بات کا سبق دیتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے کیا گیا علم کا سفر ہمیں انسانیت کی بھلائی اور روحانی عظمت کی طرف لے جاتا ہے، اور ہمیں اس ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایسا ہی علم، حکمت اور بصیرت کا چراغ روشن چھوڑیں۔
بدلتی ہوئی دنیا میں اسلامی اقدار
بدلتی ہوئی دنیا میں اسلامی اقدار ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرواتی ہیں کہ حقیقی کامیابی دنیاوی چمک دمک میں نہیں، بلکہ ان اصولوں میں ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں سکھائے۔ آج کا انسان جہاں جدیدیت اور مادی ترقی کی دوڑ میں بھاگ رہا ہے، وہاں اسلامی اقدار ہمیں اس دوڑ میں سکون اور اطمینان کا راستہ دکھاتی ہیں۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ “بے شک، اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے” (سورہ الرعد: 28)۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظاہری خوشیوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے ہمیں اللہ کے احکام پر عمل کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنی روح کو سکون دے سکیں۔ اسلامی اصول ہمیں عفو، محبت، عدل، اور قربانی سکھاتے ہیں، جو ہمیں انسانیت کے قریب اور اللہ کی رضا کے قریب لے جاتے ہیں۔ اس وقت ہمیں اپنی لاپروائیوں اور خود غرضیوں کو پہچاننا ہوگا اور اپنے دل میں اللہ کا خوف اور اپنے اعمال میں خلوص پیدا کرنا ہوگا۔ اسلامی اقدار ہماری روح کو ایک ایسی بلندی عطا کرتی ہیں جہاں دنیاوی خواہشات کی اندھی دوڑ بے معنی ہو جاتی ہے۔
ٹیکنالوجی اور ایمان
ٹیکنالوجی اور ایمان کا تعلق اس قدر گہرا ہے کہ آج کے دور میں ہمیں اپنے اعمال پر اور بھی زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی نے ہمیں معلومات کے سمندر میں غرق تو کیا ہے، لیکن کیا یہ ہمیں اللہ کے قریب بھی لے جا رہی ہے یا ہم اس کی وجہ سے اپنے ایمان سے دور ہوتے جا رہے ہیں؟ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور اس کی طرف رجوع ہر حال میں ضروری ہے۔ مگر آج، ہم ٹیکنالوجی کی رنگینیوں میں کھو کر اس سچائی کو بھولنے لگے ہیں۔ ہمیں اپنے موبائل، کمپیوٹر اور سوشل میڈیا کی دنیا سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا کہ آیا ہم ان چیزوں کو اپنے ایمان کی مضبوطی کے لیے استعمال کر رہے ہیں یا یہ چیزیں ہمیں نفس کی غلامی میں ڈال رہی ہیں؟ ایمان ہمیں اپنے خالق کی طرف جھکنے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی دعوت دیتا ہے، اور یہی ہمارا امتحان ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کو ایک ایسی روشنی بنائیں جو ہمیں اللہ کی رضا کے قریب لے آئے، نہ کہ ہمیں اس کی یاد سے غافل کر دے۔
جدید دور میں اسلام اور سماجی انصاف
اسلام کی روح میں سماجی انصاف وہ بنیادی اصول ہے جس کے بغیر ایک متوازن اور پر امن معاشرہ وجود میں نہیں آ سکتا۔ آج کے جدید دور میں، جہاں مفاد پرستی اور خودغرضی عام ہو چکی ہیں، ہمیں اسلامی تعلیمات کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے جو ہمیں انسانیت، عدل، اور مساوات کا سبق دیتی ہیں۔ قرآن ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب انسان برابر ہیں اور کسی کو کسی پر فوقیت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس جگہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر نہ کیا جائے تو یہاںمیرے بلاگ کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے سامنے خطبہ دینا چاہا۔ خطبے کے دوران ایک صحابی نے کھڑے ہو کر سوال کیا، “اے امیرالمومنین، پہلے یہ بتائیں کہ آپ نے یہ کپڑا کیسے لیا؟” واقعہ یوں تھا کہ اس وقت ہر صحابی کو بیت المال سے ایک ایک چادر دی گئی تھی، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس دو چادریں تھیں۔ صحابی کو یہ گمان ہوا کہ امیرالمومنین کو بیت المال سے زیادہ حصہ دیا گیا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، “میری بات سنو! یہ کپڑا میں نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حصے کی چادر سے بنایا ہے۔” حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً کھڑے ہو کر گواہی دی کہ، “جی ہاں، میں نے اپنے حصے کی چادر اپنے والد کو دی تاکہ ان کے کپڑے پورے ہو سکیں۔” اس پر صحابی نے اطمینان سے کہا کہ “اب ہم آپ کی بات سن سکتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بہترین مثال ہے کہ اسلامی ریاست کے سربراہ کے لیے انصاف اور شفافیت کس قدر ضروری ہے۔لیکن کیا ہم نے اپنی ذات کو کبھی اس عدل کے آئینے میں دیکھا؟ کیا ہم نے اپنی زندگیوں میں دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا؟ آج، ہم جب اپنے آس پاس غربت، بے انصافی اور ظلم دیکھتے ہیں، تو کیا ہم اپنے ضمیر سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم اس کے سدباب کے لئے کچھ کر رہے ہیں؟ سماجی انصاف کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنے دل کو غرور، حسد، اور غفلت سے پاک کریں اور دوسروں کے لئے بھی ویسا ہی سوچیں جیسا ہم اپنے لئے چاہتے ہیں۔ اگر ہم واقعی اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو یہ دنیا ایک جنت بن سکتی ہے، لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی لاپروائیوں کو ختم کر کے انصاف اور محبت کے پیغام کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔
جدید طرز زندگی کے چیلنجز پر اسلامی نظریات
آج کی تیز رفتار زندگی میں ہم روز بروز دنیاوی خواہشات اور مادی چیزوں میں الجھتے جا رہے ہیں، اور ان ہی لمحوں میں ہمیں اسلام کی سادگی اور حقائق سے لبریز تعلیمات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ قرآن اور سنت ہمیں ایسے اصول عطا کرتے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی زندگی کو ایک مقصد اور سکون دے سکتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جس زندگی کی طلب میں ہم اپنی راتیں جاگتے ہیں اور دن رات محنت کرتے ہیں، وہ صرف چند دنوں کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے، “بے شک دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے” (سورہ الرعد: 28)
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھردری چادر اور سادہ لباس پہنا ہوا تھا، حالانکہ اُس وقت آپ مسلمانوں کے خلیفہ تھے اور چاہے تو بیش قیمت لباس پہن سکتے تھے۔ کسی نے پوچھا، ’’اے امیر المؤمنین! آپ سادہ کپڑے کیوں پہنتے ہیں؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، ’’اگر میں دنیا کی چمک دمک میں کھو جاؤں گا تو روزِ قیامت اللہ کو کیا جواب دوں گا؟” یہ بات ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جدید طرز زندگی کے چیلنجز کے باوجود، اگر ہم اسلامی تعلیمات اور سادگی پر قائم رہیں اور اپنے دل میں عاجزی پیدا کریں، تو اللہ کے قریب ہو سکتے ہیں۔
غلط فہمیاں اور میڈیا
آج کے دور میں میڈیا کا کردار ہماری زندگیوں پر اتنا حاوی ہو چکا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں اور کانوں کے ذریعے ہر بات کو حقیقت مان لیتے ہیں، چاہے وہ صحیح ہو یا غلط۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیاں ہماری سوچ پر اثر ڈالتی ہیں، اور یہ دیکھ کر دل میں ایک کسک سی ہوتی ہے کہ کیسے میڈیا کی جانب سے بعض اوقات حقائق کو بگاڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ قرآن ہمیں بار بار اس بات کا درس دیتا ہے کہ ہر بات کو تحقیق اور غور و فکر کے بعد قبول کریں۔ مگر ہم اکثر جلد بازی میں سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے اپنی لاپروائی سے دوسروں کو قصوروار ٹھہرا دیتے ہیں۔ جب ہم میڈیا کی سچائی کے پیچھے چھپے جھوٹ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، تو یہ لاپروائی ہمیں حقیقت سے دور کر دیتی ہے۔ ہمیں حضرت محمد ﷺ کی اس حدیث کو یاد رکھنا چاہیے: “مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں” (بخاری)۔
اللہ ہمیں انصاف اور حق کی راہ پر چلنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر ہم اپنے دل کو تعصب اور بغض سے پاک کر کے حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں تو شاید ہمیں اپنی کوتاہیوں کا احساس ہو، اور ہمیں وہ نظر آئے جو اللہ دیکھنا چاہتا ہے، نہ کہ جو ہمیں دکھایا جا رہا ہے۔