اسلامی روحانیت دل سے رب تک کا سفر

اسلامی روحانیت
 دل سے رب تک کا سفر

لفظ ” سپرچویلٹی” کی اصل لاطینی زبان کے لفظ “سپرٹ “سے ہے، جس کے معنی سانس، ہوا، روح کے ہیں۔ اسی جڑ سے نکلا فعل اسپائر یعنی “سانس لینا” ہےجس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدائی طور پر روحانیت کو زندگی کی بنیادی قوت یا اندرونی توانائی کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ بعد ازاں یہ لفظ مذہبی اور باطنی معنوں میں استعمال ہونے لگا، خاص طور پر عیسائیت میں جہاں اسے “روح القدس کی رہنمائی میں زندگی گزارنے” سے تعبیر کیا گیا۔ اسلامی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو “روحانیت” کا مفہوم قرآن و سنت کے مطابق تزکیہ نفس، صفائے قلب، قربِ الٰہی، ذکر و فکر اور اخلاص پر مبنی ہے۔ میرے ذاتی خیال میں روحانیت صرف کسی مخصوص مذہبی نظام کا نام نہیں بلکہ یہ ہر انسان کی فطری پیاس ہے — ایک ایسا باطنی سفر جس میں انسان ظاہری مادی وجود سے نکل کر اپنے خالق کی تلاش میں دل کی گہرائیوں میں جھانکتا ہے۔ آج کے پُرآشوب دور میں روحانیت ہمیں سکون، توازن، مقصد اور اللہ سے جڑنے کا وہ راستہ دیتی ہے جو محض ظاہری عبادات سے آگے جا کر باطن کو بھی جگا دیتی ہے۔ روحانیت کی یہی جامعیت اور وسعت اسے ہر دور کا زندہ موضوع بناتی ہے۔      

لغوی معنی

“روحانیت” عربی لفظ “روح” سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے جان، زندگی، لطیف وجود یا باطنی حقیقت۔ لغوی طور پر “روحانیت” کا مطلب ہے روح سے منسوب یا روح سے متعلق حالت یا کیفیت۔

اصطلاحی معنی

اصطلاحی طور پر روحانیت اُس باطنی اور قلبی کیفیت کا نام ہے جس کے ذریعے انسان اپنے رب سے قرب، معرفت، اور سچائی کی تلاش میں مصروف ہوتا ہے۔ یہ مادّی دنیا سے بالاتر ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ، عبادات میں خلوص، اور نفس کے تزکیے کا نام ہے۔

اسلامی روحانیت دراصل ایمان کی گہرائی، اخلاق کی بلندی، اور دل کی پاکیزگی کی وہ کیفیت ہے جو بندے کو اللہ کی رضا، محبت، اور معرفت کے قریب لے جاتی ہے۔

نکتہ سمجھنے کے لیے مثال:

جیسے جسم کی غذا کھانا ہے، ویسے ہی روح کی غذا ذکرِ الٰہی، عبادت، اور قربِ الٰہی ہے۔ اگر جسم کو غذا نہ دی جائے تو وہ کمزور ہو جاتا ہے، ایسے ہی روح کو اگر اللہ کی یاد سے محروم رکھا جائے تو وہ بے سکون اور اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔

اسلامی روحانیت اور دین کا تعلق

٭دین کا ظاہری و باطنی پہلو

اسلام ایک مکمل دین ہے، جو انسان کی ظاہری عبادات (نماز، روزہ، زکٰوۃ، حج) کے ساتھ ساتھ باطنی صفات (اخلاص، تقویٰ، صبر، شکر، محبتِ الٰہی) پر بھی زور دیتا ہے۔

ظاہری پہلو = شریعت

باطنی پہلو = روحانیت (تصوف، احسان)

٭روحانیت دین کی روح ہے

جیسے جسم کے بغیر روح بےمعنی ہے، ویسے ہی دین کے اعمال روحانیت کے بغیر صرف ایک رسم بن جاتے ہیں۔ روحانیت دین کے اعمال کو اخلاص، محبت اور اللہ سے تعلق عطا کرتی ہے۔

٭قرآن و حدیث سے تعلق

قرآن کریم اور احادیث میں جگہ جگہ تقویٰ، خشیت، ذکر، تزکیہ نفس اور قلبِ سلیم کا ذکر ہے۔ یہ سب روحانیت کے بنیادی عناصر ہیں۔

 ٭مقامِ احسان

حدیثِ جبریل میں “احسان” کا ذکر دین کے تیسرے اہم رکن کے طور پر کیا گیا، جس کا مفہوم ہے:

تم اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اُسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہ ہو تو یہ یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

یہی روحانیت کا نچوڑ ہے۔

٭دین اور روحانیت میں جدائی کا تصور غلط ہے

بعض لوگ روحانیت کو دین سے الگ کر دیتے ہیں، یا صرف ظاہری اعمال کو کافی سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دین کا ظاہری نظام (شریعت) اور باطنی نظام (روحانیت) دونوں لازم و ملزوم ہیں۔

٭صوفیاء کا کردار

اولیاء اور صوفیاء نے ہمیشہ شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے روحانیت کو فروغ دیا۔ ان کے نزدیک نماز، روزہ، ذکر، خدمتِ خلق اور اللہ سے سچا تعلق ایک ہی نظام کے اجزاء ہیں۔

اسلامی روحانیت کے بنیادی اصول

اسلامی روحانیت کے بنیادی اصول دراصل وہ بنیادیں ہیں جن پر ایک فرد اپنی باطنی اصلاح، قربِ الٰہی اور روحانی ترقی کی عمارت کھڑی کرتا ہے۔ ان اصولوں کی جڑیں قرآن و سنت، صوفیانہ تعلیمات اور اولیاء کرام کی عملی زندگی میں پیوست ہوتی ہیں۔ ذیل میں روحانیت کے چند اہم اصول بیان کیے جا رہے ہیں:

٭اخلاص (خالص نیت)

روحانی سفر کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہر عمل صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ بغیر اخلاص کے کوئی عبادت روحانیت کی طرف نہیں لے جا سکتی۔

٭تزکیۂ نفس (نفس کی پاکیزگی)

اسلامی روحانیت کا اصل میدان “نفس” ہے۔ جب تک انسان اپنے نفس کی خواہشات، حسد، غرور، تکبر اور لالچ کو قابو میں نہیں لاتا، وہ سچّی روحانیت حاصل نہیں کر سکتا۔

٭ذکر و فکر

اللہ کے ذکر اور اس کی نشانیوں پر غور و فکر کرنا روح کو جِلا دیتا ہے۔ صوفیائے کرام کے ہاں ذکر ایک مستقل عمل ہے جو دل کو زندہ رکھتا ہے۔

 ٭قربِ الٰہی کی طلب

روحانی راستے پر چلنے والے کی سب سے بڑی چاہت اللہ کا قرب حاصل کرنا ہوتی ہے۔ یہ طلب انسان کو دنیا کی آلائشوں سے ہٹا کر رب کی طرف کھینچتی ہے۔

 ٭اتباعِ سنت

روحانی ترقی کے لیے نبی کریم ﷺ کی سنت کو اپنانا لازمی ہے۔ اولیاء کرام نے ہمیشہ سنتِ نبوی ﷺ کو روحانی تربیت کا ستون قرار دیا ہے۔

٭شیخ یا مرشد سے وابستگی

اسلامی روحانیت کے راستے میں رہنمائی کے لیے ایک کامل مرشد یا روحانی استاد کی صحبت ضروری ہوتی ہے، جو طالب کو شیطانی دھوکے سے بچا کر منزل کی طرف لے جائے۔

 ٭صبر و شکر

روحانی راہ میں مشکلات آتی ہیں، مگر صبر ان کا حل ہے اور ہر نعمت پر شکر کرنا روح کو مزید قریبِ الٰہی کرتا ہے۔

 ٭مجاہدہ و ریاضت

اسلامی روحانیت میں مجاہدہ یعنی اپنے نفس کے خلاف کوشش اور عبادت میں پابندی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔

اسلامی روحانیت کے ذرائع

(روحانیت کے ذرائع )اسلامی روحانیت
(روحانیت کے ذرائع )اسلامی روحانیت

اسلامی روحانیت کے ذرائع وہ مبارک وسائل ہیں جن کے ذریعے انسان اپنے باطن کو پاک کرتا اور قربِ الٰہی حاصل کرتا ہے۔ ان میں سب سے عظیم ذریعہ قرآن مجید ہے جو روح کی غذا اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اسی طرح ذکر و اذکار جیسے اسماء الحسنیٰ، درود پاک اور تسبیحاتِ الٰہی دل کو جِلا بخشتے ہیں اور روح کو نورانی بناتے ہیں۔ نماز، روزہ، نوافل، اور تہجد جیسی عبادات بندے کو اللہ کے قریب کرتی ہیں۔ نیک لوگوں کی صحبت، اولیاء کی مجالس اور مرشدِ کامل کی رہنمائی روحانی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ علم دین کا حاصل کرنا، صوفیاء و علماء کی کتب کا مطالعہ، اور اپنے اعمال پر غور و فکر (مراقبہ) بھی روحانی شعور بیدار کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، خدمتِ خلق، سخاوت، اور دوسروں کے لیے قربانی دینا روح کو لطافت اور دل کو وسعت عطا کرتا ہے۔ میری رائے میں، ان تمام ذرائع کو اپنا کر انسان نہ صرف اپنی باطنی دنیا سنوار سکتا ہے بلکہ دنیا و آخرت میں حقیقی فلاح بھی پا سکتا ہے۔

روحانی ترقی کی نشانیاں

روحانی ترقی کی نشانیاں انسان کی باطنی کیفیت، کردار، اور اللہ تعالیٰ سے تعلق میں واضح انداز سے جھلکتی ہیں۔ ایسا شخص دنیا کی لذتوں اور حسد، غرور، غصے جیسے منفی جذبات سے دور ہوتا ہے، اور اس کے دل میں عاجزی، محبت، اخلاص اور صبر جیسے اوصاف نمایاں ہوتے ہیں۔ روحانی ترقی یافتہ انسان گناہوں سے نفرت اور نیکی کی رغبت محسوس کرتا ہے، اُس کا دل ذکرِ الٰہی سے منور ، اور زندگی قرآن و سنت کے مطابق ہو جاتی ہے۔ وہ خلقِ خدا سے حسنِ سلوک کرتا ہے، حتیٰ کہ دوسروں کی ایذا پر بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتا۔ اس کے اندر ایک سکون، اطمینان اور نورانیت محسوس ہوتی ہے جو صرف اللہ کے قرب سے حاصل ہوتی ہے۔ میری رائے میں روحانی ترقی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انسان کا دل گناہوں پر بے چین ہو اور نیکیوں میں لذت محسوس ہو۔ جب انسان کا باطن مسلسل تزکیہ اور اللہ کی یاد میں محو ہو جائے تو یہی روحانی بلندی کی اصل علامت ہے۔

اسلامی روحانیت کے متعلق عام غلط فہمیاں

اسلامی روحانیت کے متعلق چند عام غلط فہمیاں معاشرے میں بہت عام ہیں، جن کی وجہ سے لوگ اس عظیم حقیقت کو یا تو غلط انداز میں سمجھتے ہیں یا اس سے دور ہو جاتے ہیں۔ پہلی بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ صرف بزرگی، کشف یا کرامات کا ظاہر ہونا ہی روحانیت کی علامت ہے، حالانکہ اصل روحانیت کا تعلق دل کی صفائی، اللہ سے قرب، اور باطنی اصلاح سے ہوتا ہے، نہ کہ ظاہری عجائبات سے۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ روحانیت کو دین سے الگ کوئی علیحدہ راستہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روحانیت دینِ اسلام کا باطنی اور لازمی پہلو ہے جو شریعت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ تیسری بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ بعض لوگ روحانی مشقوں، ذکر، تنہائی یا سکوت کو نفسیاتی کمزوری، سستی یا دنیا سے بھاگنے کی علامت سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ وہ راستہ ہے جس میں انسان اپنی اصل حقیقت کو پہچانتا اور اپنے خالق سے قرب حاصل کرتا ہے۔ ان غلط فہمیوں کا ازالہ علم، تربیت اور روحانی بصیرت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top