استخارہ کا کرنے کا طریقہ اور اُس کی ضروری معلومات

استخارہ کی تعریف اور استخارہ کے حقائق کا پس منظر

استخارہ خیر سے بنا ہے اس کے معنی ہیں اللہ تعالی سے خیر طلب کرنا۔

زمانہ جہالت میں دستور تھا کہ جب کوئی اہم کام کرنا ہوتا مثالا سفر یا نکاح یا کوئی بڑا سودا کرنا ہوتا تو وہ تیروں کے ذریعہ فال نکالا کرتے تھے، یہ تیر کعبہ شریف کے مجاور کے پاس ہوا کرتے تھے، ان میں سے کسی تیر پر لکھا تھا: أَمَرَنِيْ رَبِّيْ ( مجھے میرے رب نے حکم دیا) اور کسی تیر پر لکھا تھا: نَهَانِيْ رَبِّيْ

( مجھے میرے رب نے منع کیا ) اور کوئی تیر بے نشان تھا، اس پر باب کچھ لکھا ہوا نہیں تھا، مجاور تھیلا ہلا کر قال طلب کرنے والے سے کہتا کہ ہاتھ ڈال کر ایک تیر نکال ! اگر امرنی ربی والا تیر نکلتا تو وہ شخص کام کر لیتا اور نهانی ربی والا تیر نکلتا تو وہ کام سے رک جاتا اور بے نشان تیر ہاتھ میں آتا تو دوبارہ فال نکالی جاتی ۔ سورۃ المائدہ آیت ۳ کے سےذریعہ اس کی حرمت نازل ہوئی اور حرمت کی دو وجہیں ہیں:

٭ یہ ایک بے بنیاد عمل ہے، اور اللہ پاک سے تعلق نہ ہونے کی وجہ ہے۔

٭ یہ اللہ تعالی پر جھوٹا الزام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یا یہ کہ اللہ تعالی نے منع کیا ہے حالانکہ یہ بالکل غلط اور بے دلیل بات ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فال کے مذکورہ بالا طریقہ کے بجائے استخارہ کی تعلیم فرمائی۔

استخارہ کی ضرورت

ہر بندے کا علم کامل نہیں ہوتا کیونکہ ہر بندہ عالم با عمل نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر بندہ مقبول بارگاہ ہوتا ہے بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندہ ایک کام کرنا چاہتا ہے اور اس کا انجام اس کے حق میں اچھا نہیں ہوتا یا وہ خود شک میں ہوتا ہے، احادیث مبارکہ میں اس کے لئے ‘استخارہ’ کی تعالیم دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ جب کوئی خاص اور اہم کام در پایش ہو تو دور کعت نماز پڑھ کر اللہ تعالی سے رہنمائی اور کام میں آسانی کی دعا کر لینی چاہئے۔

استخارہ کی اہمیت

استخارہ کی اہمیت مختلف احادیث میں وارد ہوئی ہے اختصار کے لئے ان میں سے 3 احادیث کا ترجمہ درج ذیل ہیں

 ٭ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ :   جناب رسول اللہ ﷺہم کو تمام معالات میں استخارہ اسی اہتمام سے سکھلاتےتھے جیسے قرآن کریم کی سور ۃ سکھلاتے تھے۔  (ترمذی ص ۱۰۹، ج ۱)

 ٭حضرت سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا! ابن آدم ( انسان ) کی نیک بختی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے مقدر میں جو کچھ لکھ دیا ہے، وہ اس پر راضی رہے، اور ابن آدم کی بد بختی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی سے خیر اور بھلائی کو مانگنا چھوڑ دے، نیز ابن آدم کی بد بختی یہ ہے کہ جو کچھ اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اس سے ناخوش اور ناراض ہو۔  (مشکوٰة ، ۵۳۰۳)

٭ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: استخارہ کرنے والا کبھی نا کام نہیں ہوتا، اور مشورہ کر نیوالا بھی پشیمان نہیں ہوتا۔  (رواه الطبراني في الصغير والأوسط)

استخارہ کی حکمت اور فائدہ

استخارہ میں حکمت یہ ہے کہ جب بندہ رب علیم سے رہنمائی کی التجا کرتا ہے، اپنے معاملہ کو اپنے مولی کے حوالے کرتا ہے اور اس کی مرضی معلوم کرنے کے لئے پوری طرح متوجہ ہوتا ہے تو اللہ تعالی اپنے بندے کی رہنمائی اور مدد فرماتا ہے، اللہ تعالی کی طرف سے رحمت کا درواز ہ کھاتا ہے۔ اور بندے کے لئے خیر کی راہ ہموار کی جاتی ہے پس استخارہ محض اتفاق نہیں بلکہ اس کی ایک مضبوط بنیاد ہے۔

نیز استخارہ کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فرشتہ کی صفت کو اختیار کرتا ہے کیونکہ استخارہ کرنے والا اپنی ذاتی رائے سے نکل جاتا ہے اور اپنی مرضی کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کر دیتا ہے۔

ستخارہ کا حکم

جائز کاموں میں استخارہ کرنا مسنون ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کی بہت ترغیب آئی ہے۔

استخارہ کن معاملات میں کیا جاتا ہے

استخارہ صرف اس معاملہ میں کیا جاتا ہے جس میں نفع و نقصان دونوں کا احتمال ہو باقی جو کام عادہ یا شرعا یقینی طور پر نفع مند یا یقینی طور پر مصر ہو ( یا فرض، واجب یا حرام ہو تو ) اس میں استخارہ کرنے لگے یا کوئی ناجائز کام کے لئے استخارہ شروع کر دے، تو ایسے کام کے لئے بات استخارہ کرنا ٹھیک نہیں بلکہ شرعاً مز موم ہے۔

استخارہ کون کرے؟

آج کل عموما یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی در پیش معاملہ میں استخارہ خود کرنے کے بجائے کسی پیر، عالم وغیرہ سے کروایا جاتا ہے۔ بعض لوگ اپنے کو گنہ گار خیال کرتے ہوئے استخارہ کا اہل نہیں سمجھتے اور کسی عالم یا بزرگ سے ہی استخارہ کروانے کو لازم اور ضروری سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ استخارہ کے لئے شریعت نے کوئی ایسی شرط نہیں لگائی کہ استخارہ کوئی گنہ گار انسان نہ کرے کوئی ولی اللہ ہی کرے۔ نیز احادیث مبارکہ میں بھی صاحب معاملہ کو بذات خود استخارہ کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے، استخارہ کی دعا میں تمام صیغے صاحب معاملہ کے لئے ہیں گویا وہ خود خیر کا طالب ہے، لہذا مسنون اور بہترین طریقہ یہی ہے کہ آدمی خود استخارہ کرے۔ اس میں سنت پر عمل کا ثواب بھی ملے گا۔ البتہ کسی دیندار صالح شخص سےاستخارہ کروانا نا جائز اور گناہ بھی نہیں۔

طریقہ استخاره

جب کسی امر میں استخارہ کرنا چاہیں تو وضو کر کے صاف کپڑے پہن لیں، پاک بستر پر داہنی کروٹ لیٹ کر سورة والشمس سات مرتبہ سورۃ اللیل سات مرتبہ اور سورہ اخلاص سات مرتبہ پڑھیں ایک اور روایت کے مطابق ہے کہ سورہ اخلاص کی بجائے سورۂ والتین پڑھے پھریہ دعا پڑھے:

اللَّهُمَّ أَرِنِيْ مَنَامِيْ مَا كَذَا وَكَذَا وَاجْعَلْ لِیْ مِنْ أَمْرِيْ

فَرَجًا وَ مَخْرَجًا وَ أَرِنِيْ فِيْ مَنَامِيْ مَآ اَسْتَدِ لُّ بِهٖ عَلَى

إجَابَةِ دَعْوَتِيْ

اول تو پہلی رات میں ہی معلوم ہو جائے گا اور نہ دوسری یا تیسری رات میں نہیں تو سات راتوں تک یہ عمل کریں ان شاء اللہ عز وجل ضرور حال کھل جائے گا۔

استخارہ کی مدت اور وقت

استخارہ کے لئے شرعا کوئی مدت متعین نہیں ہے لہٰذا اگر ایک دن میں دل کا تر و دوور نہ ہو تو دوسرے دن بھی ایسا ہی کرلے۔ اسی طرح سات دن تک کرے پھر جس طرح بہتر معلوم ہو ویسا ہی کر لیا جائے۔ نیز چونکہ احادیث مبارکہ میں استخارہ کے لئے کسی خاص وقت کا تعین نہیں کیا گیا ہے لہذا استخارہ کے نفل رات یا دن کسی بھی وقت پڑھے جاسکتے ہیں۔ اس کے لئے رات کی تخصیص نہیں۔ البتہ چونکہ رات کو تنہائی اور یکسوئی کا وقت ہوتا ہے اس لئے عموما اسی وقت استخارہ کیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو رہنمائی کیسے ملتی ہے

حدیث شریف میں یہ بات متعین نہیں کی گئی کہ بندے کو رہنمائی کس طرح حاصل ہوگی۔ اللہ تعالی کے بندوں کا تجربہ ہے کہ یہ رہنمائی بسا اوقات خواب وغیرہ میں نیبی اشارہ کے ذریعہ  ہوتی ہےاور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل میں اس کام کے کرنے کا جذبہ شدت سے پیدا ہوتا ہے، یا اس کے برعکس اس کی طرف سے دل بالکل ہٹ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ان دونوں میں سے کسی بھی کیفیت کو من جانب اللہ اور دعا کا نتیجہ سمجھنا چاہیے اور اگر استخارہ کے بعد کسی ایک طرف طبیعت کا میلان نہ ہو تو استخارہ بار بار کرنا چاہیے۔

استخارہ کے مطابق یا اسکے خلاف کرنے کا حکم

استخارہ کرنے کے بعد جس چیز کی طرف دل کا رجحان ہو اور ظاہری حالات بھی اس کے موافق معلوم ہوں اس کو اختیار کر لینا چاہئے ، تاہم اگر دل کا رجحان کسی ایک جانب ہورہا ہو لیکن ظاہری حالات و مصلحتوں کی بنا پر کسی دوسری بات میں ترجیح نظر آرہی ہو تو اس کو اختیار کر لینا اور اس پر عمل کر لینا چاہیے اور اس بات کو استخارہ کے منافی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایک اہم اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ بعض لوگ اپنے معاملات کے لئے استخارہ ہی کو بنیاد بنا لیتے ہیں اور ایک دوسرے اہم ترین عمل ” مشورہ کو نظر انداز کر دیتے ہیں ، حالانکہ مسلمان کو چاہئے کہ جب کسی کام کے لئے استخارہ کرے تو اس کام کے بارے میں اپنے خیر خواہوں ، بزرگوں اور اس کام کی اچھی سمجھ رکھنے والوں سے مشورہ بھی کرے۔ کیونکہ مشورہ قرآنی حکم ہے، مسنون ہے اوراحادیث مبارکہ میں مشورہ کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے۔

ایک ضروری وضاحت

مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق استخارہ و مشورہ کرنے کے باوجود اگر بعد میں نتیجہ بظاہر نا موافق نظر آئے تو آدمی کو استخارہ و مشورہ ترک نہ کرنا چاہتے بلکہ یوں سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالی نے مجھے برائی سے محفوظ رکھا ہے اور یہی میرے حق میں بہتر تھا جس کی حقیقت اگر چہ ابھی نظروں سے پوشیدہ ہے تاہم قیامت کے دن سب ظاہر ہو جائے گا ، عالم الغیب جل شانہ کی حکمت بالغہ تک ہماری رسائی ممکن بھی نہیں۔

دعائے استخارہ

اللَّهُمَّ اِنِّي اَسْتَخِيْرُكَ بِعِلْمِكَ وَاَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ

وَاَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ

وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اَللّٰهُمَّ إِنْ

كُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ خَيْرٌ لِّيْ فِیْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ

وَعَاقِبَةِ اَمْرِىْ فَاقْدِرْهُ لِيْ وَیَسِّرْهُ لِیْ ثُمَّ بَارِكْ لِیْ فِيْهِ

وَاِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّلِّیْ فَيْ دَيْنِیْ وَمَعَاشِيْ

وَعَاقِبَةِ اَمْرِىْ فَاصْرِفْهُ عَنِّى وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ وَاقْدِرْلِیَ الْخَيْرَ

حَيْثُ كَانَ ثُمَّ اَرْضِنىْ بِه

اور جب هٰذَا الْاَمْرَ پر پہنچے جس لفظ پر لکیربنی ہے تو اس کے پڑھتے وقت اس کام کا دھیان کرلے جس کے لئے استخارہ کرنا چاہتا ہے۔

ترجمہ:

                              اے اللہ تیرے علم کے ساتھ میں بہتری طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ میں قادر ہونے کی طلب کرتا ہوں اور تیرے عظیم فضل کا تجھہ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔ اور تو تمام غیبوں کو اچھی طرح جانے والا ہے، اے اللہ! اگر تو اس کام کو میرے لیے دین و دنیاوی زندگی میں اور انجام اخروی یا میری دنیا اور آخرت میں فائدہ مند اور بہتر ہونا جانتا ہے تو اسے میرے لیے آسان بنا دے۔ پھر اس میں مجھے برکت دے اور اگر اس کام کو تو میرے لیے میرے دین اور دنیا میں اور میرے اخروی انجام میں یا دنیا اور آخرت میں نقصان دہ جانتا ہے تو اسے مجھ سے پھیر دے اور میرے لیے بہتری اور نفع مقدر فرمادے ۔۔ وہ جہاں بھی ہو اور مجھے اس سے خوشی عطا فرما

          دعا کے بعد قبلہ کی طرف رخ کر کے یہ (33،33،33)کلمات پڑھنے کے بعد سو جائیں۔
اَللّٰهُمَّ يَا عَلِيمُ عَلَمْنِي
اَللّٰهُمَّ يَا خَبِيرُ أَخْبِرْنِي
اَللّٰهُمَّ يَا رَشِيدُ أَرْشِدْنِي

۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top