اعتکاف کیا ہے؟ معنی، فوائد اور اسے ادا کرنے کا طریقہ
- اعتکاف کیا ہے؟ معنی، فوائد اور اسے ادا کرنے کا طریقہ
- اعتکاف کی تعریف
- اعتکاف کے حوالے سے نبی اکرم صلی السلام کے معمولات
- مسجد نبوی میں اعتکاف کی جگہ
- سارے مہینے کا اعتکاف
- اعتکاف کا مقصد شب قدر کی تلاش
- اعتکاف کی فضیلت
- پچھلے گناہوں کی بخشش
- رو حج اور دو عمروں کا ثواب
- گناہوں سے تحفظ
- آج کل اعتکاف میں کیا ہوتا ہے؟
- مسجد میں جائز بات بھی بلا ضرورت منع
- قبر میں اندھیرہ
- مسجد کی صفائی
- اگر منہ میں بد بو ہو تو مسجد جانا حرام
- اعتکاف واجب
- اعتکاف سنت
- اعتکاف نفل
- اعتکاف کرنے کے حوالے سے تین اہم مسائل
- مسجد سے باہر نکلنے کی صورتیں
- اعتکاف توڑنے والی چیزوں کا بیان
- خواتین کا اعتکاف اور اس کے احکام
اعتکاف کی تعریف
مسجد میں اللہ عز وجل کی رضا کیلئے اعتکاف کی نیت کے ساتھ ٹھہرنا اعتکاف کہلاتا ہے۔ اس کیلئے مسلمان کا عاقل اور جنابت اور حَیض و نفاَس سے پاک ہونا شرط ہے۔ بلوغ شرط نہیں نا بالغ بھی جو تمیز رکھتا ہے اگر اعتکاف کی نیت کے ساتھ مسجد میں ٹھہرے تو اُس کا اعتکاف صحیح ہے۔
(عالمگیری ج ۱ ص ۲۱۱)
اعتکاف کے حوالے سے نبی اکرم صلی السلام کے معمولات
نبی اکرم ﷺنے ماہ رمضان پاک کا پورا مہینہ بھی اعتکاف فرمایا ہے۔ اور آخری دس دن کا تو بہت زیادہ اہتمام فرمایا کرتے۔ یہاں تک کہ ایک بار کسی وجہ سے آپ ﷺرمضان المبارک میں اعتکاف نہ کر سکے تو شوان المکرم کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا۔
( صحیح بخاری ج ۱ ص ۲۷۱ حدیث ۲۰۳۱)
حدیث میں آیا کہ
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ فَسَافَرَ عَامًا، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا
ترجمہ : آپﷺ کی ہم آخری دس دنوں کا اعتکاف فرمایا کرتے۔ ایک سال آپ ﷺ نے سفر اختیار فرمایا جس کی وجہ سے آپ ﷺ کا اعتکاف رہ گیا تو اگلے رمضان شریف میں ہیں دن کا اعتکاف فرمایا ۔
((جامع ترمذی ج ۲ ص ۲۱۲ حدیث ۸۰۳
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صلی اس ای ایم کا یہ معمول تھا کہ ہر رمضان شریف کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے اور اسی سنتِ کریمہ کو زندہ رکھتے ہوئے امہات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن بھی اعتکاف فرماتی رہیں ۔
چنانچہ ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ فی النار ولایت فرماتی ہیں کہ:
(أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ العَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللهُ، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ)
ترجمہ : نبی مکرم ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ (یعنی آخری دس دن ) کا اعتکاف فرمایا کرتے۔ یہاں تک کہ اللہ عز وجل نے آپ صلی اسلام کو وفات (ظاہری) عطا فرمائی۔
پھر آپ ﷺکے بعد آپ ﷺکی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن اعتکاف کرتی رہیں
(صحیح بخاری ج ا ص ۲۲۴ حدیث ۲۰۲۲)
مسجد نبوی میں اعتکاف کی جگہ
مسجد نبوی الشریف میں جس جگہ پیارے نبی ﷺ میں ایام اعتکاف کیلئےکھجور کی لکڑی وغیرہ سے بنی ہوئی مبارک چار پائی رکھتے تھے۔ وہاں بطور یادگار ایک مبارک ستون بنام ” اُسْطُوانَةُ الشَّرِير ” آج بھی قائم ہے
سارے مہینے کا اعتکاف
ماہِ رمضان ہی میں شب ِقدر کو بھی پوشیدہ رکھا گیا ہے لہذا اس مبارک رات کو تلاش کرنے کیلئے آپ ﷺ نے ایک بار پورے ماہ مبارک کا اعتکاف فرمایا۔
حضرت سید نا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔ نبی اکرم ﷺنے یکم رمضان سے بیس رمضان تک اعتکاف کرنے کے بعد ارشاد فرمایا :
(إِنِّي اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ، أَلْتَمِسُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ، ثُمَّ أُتِيتُ، فَقِيلَ لِي إِنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَعْتَكِفَ فَلْيَعْتَكِفْ).
ترجمہ : میں نے شب قدر کی تلاش کیلئے رمضان کے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ کا اعتکاف کیا پھر مجھے بتایا گیا کہ شب قد : رآخری عشرہ میں ہے لہذا تم میں سے جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے وہ کرلے ۔
(صحیح مسلم ص ۵۹۴ حدیث ۱۱۲۷)
اعتکاف کا مقصد شب قدر کی تلاش
ہمیں بھی اگر ہر سال نہ سہی کم از کم زندگی میں ایک بار اس ادائے مصطفے ﷺکو ادا کرتے ہوئے پورے ماہ رمضان المبارک کا اعتکاف کر لینا چاہئے ۔ رمضان المبارک میں اعتکاف کرنے کا سب سے بڑا مقصد شب قدر کی تلاش ہے ۔اور راجح قول یہی ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں ہوتی ہے اور شب قدر بدلتی رہتی ہے۔ یعنی کبھی اکیسویں کبھی تیسویں ۲۳ کبھی پچیسویں ۲۵ کبھی ستائیسویں ۲۷ تو کبھی انتیسویں ۲۹ شب ۔
اعتکاف کی فضیلت
سرکار نامدار ﷺنے فرمایا:
(وَمَنِ اعْتَكَفَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ تَعَالَى، جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ، أَبْعَدَ مَا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ)
ترجمہ : جو شخص اللہ عَزَّ وَجَل کی رضا و خوشنودی کیلئے ایک دن کا اعتکاف کریگا اللہ عز وجل اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کر دے گا جن کی مسافت مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی ۔
( الدر المنثورج | ص ۴۸۶)
پچھلے گناہوں کی بخشش
حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺکا فرمانِ خوشبودار ہے۔
“مَنِ اعْتَكَفَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.”
ترجمہ : جس شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کی نیت سےاعتکاف کیا اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
(جامع صغیر ص ۵۱۲ الحدیث ۸۴۸۰)
رو حج اور دو عمروں کا ثواب
امير الْمُؤْمِنِين على المُرتَضى شير خدا كَرَّمَ اللهُ تعالى وَجْهَهُ الکریم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی السلام کا فرمان ہے:
“مَنِ اعْتَكَفَ فِي رَمَضَانَ كَانَ كَحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ.”
ترجمہ : جس نے رمضان المبارک میں ( دس دن )کا اعتکاف کر لیا وہ ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کئے ۔
(شعب الايمان ج ۳ ص ۴۲۵ حدیث (۲۹۶۶)
گناہوں سے تحفظ
“هُوَ يَرْتَكِبُ الذُّنُوبَ، يُجْزَى لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا.”
حضرت سید نا عبد اللہ ابن عباس بنی الما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
اعتکاف کرنے والا گناہوں سے بچارہتا ہے اور اس کیلئے تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں جیسے ان کے کرنے والے کے لئے ہوتی ہیں۔
(ابن ماجه ج ۲ ص ۳۶۵ حدیث ۱۷۸۱)
آج کل اعتکاف میں کیا ہوتا ہے؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل اعتکاف نہیں بلکہ سیاسی تبصرے ہوتے ہیں۔ پہلے دودن تو اعتکاف کرنے والوں میں شوق عبادت ہوتا ہے مگر جب سب ایک دوسرے کے واقف ہو جاتے ہیں تو اب شوق عبادت ختم ہو جاتا ہے فقط شوق گفتگورہ جاتا ہے۔ مسجد کمیونٹی سنڈ یا ہوٹل کا روپ دھار لیتی ہے اور اعتکاف کرنے والے اینکرز اور مختلف تبصرہ نگاروں کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ اب خوب مسجد میں بیٹھ کر جھوٹ ، چغلی اور غیبت سے نامہ اعمال کو سیاہ کیا جاتا ہے۔
مسجد میں تو جائز بات بھی بلا ضرورت کرنا مکروہ ہے۔ حدیث میں مسجد میں باتیں کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے سے بھی منع فرمایا ۔
جیسا کہ سید نا حسن بصری صلی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی رحمت، تا جدار رسالت ﷺ کا فرمانِ ذی شان ہے:
(يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَكُونُ حَدِيثُهُمْ فِي مَسَاجِدِهِمْ فِي أَمْرِ دُنْيَاهُمْ، فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ حَاجَةٌ)
لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مساجد میں دُنیا کی باتیں ہوں گی تم ان کے ساتھ مت بیٹھو کہ ان کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے کچھ کام نہیں۔
(شعب الايمان ج ۳ ص ۸۷ حدیث ٢٩٦٢)
مسجد میں جائز بات بھی بلا ضرورت منع
امير الْمُؤْمِنِين على المُرتَضى شير خدا كَرَّمَ اللهُ تعالى وَجْهَهُ الکریم ، صاحب فتح القدیر شیخ ابن همام علیہ رحمۃ اللہ السلام کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں
“الْكَلَامُ الْمُبَاحُ فِي الْمَسْجِدِ مَكْرُوهٌ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ.”
مسجد میں مباح ( یعنی جائز ) بات کرنا مکروہ تحریمی ) ہے اور نیکیوں کوکھا جاتا ہے۔
قبر میں اندھیرہ
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی للہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم موﷺنے ارشاد فرمایا ۔
“الضَّحِكُ فِي الْمَسْجِدِ ظُلْمَةٌ فِي الْقَبْرِ.”
مسجد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا ( لاتا) ہے۔
( الجامع الصغير ص ۳۲۲ حدیث ۵۲۳۱)
مسجد کی صفائی
بعض اعتکاف کرنے والے اپنی فالتو چیزیں یعنی مختلف ٹافیوں کے ریپرز وغیرہ مسجد میں ہی جائے اعتکاف میں پھینکتے رہتے ہیں ۔ انہیں چاہیے وہ ایسا نہ کریں۔ مسجد کے اندر کسی قسم کا گوڑا ہر گز نہ پھینکیں۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی ” جذب القلوب میں نقل کرتے ہیں کہ مسجد میں اگر خس (یعنی معمولی سا تنکا یا ذرہ )بھی پھینکا جائے تو اس سے مسجد کو اس قدر تکلیف پہنچتی ہے جس قدر تکلیف انسان کو اپنی آنکھ میں خس ( یعنی معمولی ذرہ) پڑ جانے سے ہوتی ہے۔
( جذب القلوب ص ٢٥٧)
الملفوظ میں مسجد کے آداب کے لحاظ سے ہے کہ قبلہ کی طرف پاؤں پھیلانا تو ہر جگہ منع ہے۔ مسجد میں کسی طرف نہ پھیلائے کہ یہ خلاف آداب دربار
ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ مسجد میں تنہا بیٹھے تھے ، پاؤں پھیلا لیا، گوشہ مسجد سے ہاتف نے آواز دی، ابراہیم ! بادشاہوں کے حضور میں یوں ہی بیٹھتے ہیں؟ معا ( یعنی فوراً ) پاؤں سمیٹے اور ایسے سمیٹے کہ وقت انتقال ہی پھیلے۔
اگر منہ میں بد بو ہو تو مسجد جانا حرام
فتاوی رضویہ میں ہے منہ میں بد بو ہونے کی حالت میں ( گھر میں پڑھی جانے والی ) نماز بھی مکروہ ہے اور ایسی حالت میں مسجد جانا حرام ہے جب تک منہ صاف نہ کرلے۔ اور دوسرے نمازی کو ایذا پہنچنی حرام ہے، اور دوسرا نمازی نہ بھی ہو تو بھی بد بو سے ملائکہ کو ایذا پہنچتی ہے۔ ، حدیث میں ہے: جس چیز سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں فرشتے بھی ان سے تکلیف محسوس کرتے ہیں۔
(صحیح مسلم ص ۲۸۲ حدیث ۲۴ ۵ فتاوی رضویہ جلد 7 صفحه 384)
درس فقه
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں
اعتکاف واجب
اعتکاف سنت
اعتکاف نفل
اعتکاف واجب
اعتکاف کی منت مانی یعنی زبان سے کہا: میں اللہ رب العزت عز وجل کیلئے فلاں دن یا اتنے دن کا اعتکاف کروں گا۔ تو اب
جتنے بھی دن کا کہا ہے اتنے دن کا اعتکاف کرنا واجب ہو گیا۔ منت کا اعتکاف مرد مسجد میں کرے اور عورت مسجد بیت ( گھر میں جو جگہ نماز کیلئے مخصوص ہو اسے مسجد بیت کہتے) میں کرے۔ اس میں روزہ بھی شرط ہے
(رد المحتار ج ۳ ص ۲۳۰)
اعتکاف سنت
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنتِ مُؤَعَدَہ عَلَی الْکِفایہ ہے یعنی پورے شہر میں کسی ایک نے کر لیا تو سب کی طرف سے ادا ہو گیا اور اگر کسی ایک نے بھی نہ کیا تو بھی مجرم ہوئے۔ اس اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رمضان المبارک کی بیسویں تاریخ کو غروب آفتاب سے پہلے پہلے مسجد کے اندر بہ نیت اعتکاف موجود ہو اور انتیس کے چاند کے بعد یا تیس کے غروب آفتاب کے بعد مسجد سے باہر نکلے۔
(بہار شریعت حصه ۵ ص۱۵۲)
غروب آفتاب سے پہلے مسجد داخل ہو کر نیت اعتکاف کرنا بھی ضروری ہے اگر غروب آفتاب کے بعد نیت کی تو نفلی اعتکاف ہو گیا۔ دل میں نیت کر لینا ہی کافی ہے زبان سے کہنا شرط نہیں ۔ البتہ زبان سے بھی کہہ لینا زیادہ بہتر ہے۔ اس طرح کہیے میں اللہ عز وجل کی رضا کیلئے رَمَضانُ الْمُبارک کے آخری عشرہ کے سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں
اعتکاف نفل
نذر اور سنتِ مؤکدہ کے علاوہ جو اعتکاف کیا جائے وہ مستحب (یعنی نفلی ) وسنت غیر مؤکدہ ہے۔اس کیلئے نہ روزہ شرط ہے نہ کوئی وقت کی قید ۔ جیسا کہ میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : مذہب مفتی یہ پر (نفلی) اعتکاف کیلئے
روزہ شرط نہیں اور ایک ساعت کا بھی ہو سکتا ہے جب سے داخل ہو باہر آنے تک (کیلئے ) اعتکاف کی نیت کرلے ، انتظار نماز و ادائے نماز کے ساتھ اعتکاف کا بھی ثواب پائے گا۔
(فتاوی رضویه مخرجه ج ۵ ص۲۷۴)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: جب مسجد میں جائے اعتکاف کی نیت کرلے، جب تک مسجد ہی میں رہے گا اعتکاف کا بھی ثواب پائے گا۔
(فتاوی رضویه ج ۱ ص ۹۸)
نیت یہ ہے ” نَوَيْتُ سُنَّةَ الْإِعْتِكَاف ” ترجمہ: میں نے سنت اعتکاف کی نیت کی ۔ عربی میں ضروری نہیں مادری زبان میں بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور رد المحتار میں ہے کہ مسجد کے اندر کھانے پینے اور سونے کی شرعا اجازت نہیں ، اگر اعتکاف کی نیت تھی تو ضمناً کھانے پینے اور سونے کی اجازت بھی ہو جائے گی ۔
(رد المحتار ج ۲ ص ۴۳۵)
اعتکاف کرنے کے حوالے سے تین اہم مسائل
بہار شریعت میں فتح القدیر کے حوالے سے ہے کہ اعتکاف کیلئے تمام مساجد سے مسجد الحرام شریف افضل ہے، پھر مسجد النبوي الشريف عَلٰى صَاحِبِهَا الصّلوةُ وَالسَّلام پھر مسجد اقصی شریف ( بیت المقدس ) پھر ایسی جامع مسجد جس میں پنج وقتہ باجماعت نماز ہوتی ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر اپنے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔
بہار شریعت ج 1 حصه 5 ص 1020 فتح القدير ج ۲ ص ٣٠٨))
جامع مسجد ہونا اعتکاف کے لئے شرط نہیں بلکہ مسجد جماعت میں بھی ہو سکتا ہے۔مسجد جماعت وہ ہے جس میں امام و موذن مقر رہوں اگرچہ اس میں پنجگانہ نماز نہ ہوتی ہو اور آسانی اس میں ہے کہ مطلقا ہر مسجد میں اعتکاف صحیح ہے۔ اگر چہ وہ مسجد جماعت نہ ہو۔ خصوصاً اس زمانے میں کہ بعض مسجد میں ایسی ہیں کہ جن میں نہ امام ہیں نہ مؤذن۔
(بہار شریعت حصه ۵ ص (1021)
فنائے مسجد میں جانے سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ جیسا کہ حضرت صدر الشریعہ، صاحب بہار شریعت حضرت مولانا امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں، فنائے مسجد جو جگہ مسجد سے باہر اس سے ملحق ضروریات مسجد کیلئے ہے، مثلاً جوتا اتارنے کی جگہ اور غسل خانہ وغیرہ ان میں جانے سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ مزید آگے فرماتے ہیں ، فنائے مسجد اس معاملے میں حکم مسجد میں ہے۔
(فتاوی امجدیه ج ا ص ۳۹۹)
مسجد سے باہر نکلنے کی صورتیں
اعتکاف کے دوران دو صورتوں میں مسجد سے باہر نکلنے کی اجازت ہے۔
٭حاجت شرعی
٭حاجت طبیعی
حاجت شرعی
حاجت شرعی یعنی جن احکام و اُمور کی ادائیگی شر عاضر وری ہو۔ اور مختلف ، اعتکاف گاہ میں ان کو ادا نہ کر سکے، اُن کو حاجات شرعی کہتے ہیں۔ مثلا نماز جمعہ اس مسجد میں ادا نہیں کیا جاتا تو مختلف نماز جمعہ پڑھنے اس مسجد سے نکل سکتا ہے۔
یہ اپنی اعتکاف والی مسجد سے اندازاً ایسے وقت میں نکلے کہ خطبہ شروع ہونے سے پہلے وہاں پہنچ کر چار ۴ رکعت سنت پڑھ سکے اور نماز جمعہ کے بعد اتنی دیر مزید ٹھہر سکتا ہے کہ چار ۴ یا چھ ۶ رکعت پڑھ لے۔ اور اگر اس سے زیادہ ٹھہرا رہا بلکہ باقی اعتکاف اگر وہیں پورا کر لیا تب بھی اعتکاف نہیں ٹوٹےگا۔ لیکن نماز جمعہ کے بعد چھ ۶ رکعت سے زیادہ ٹھہر نا مکروہ ہے۔
دُرِّسُخْتَانَ رَدُّ الْمُحْتارج ۳ ص۴۳۷ ))
حاجت طبعی
حاجت طبعی یعنی وہ ضرورت جس کے بغیر چارہ نہ ہو مثلا احاطہ مسجد میں اگر پیشاب وغیرہ کے لئے کوئی جگہ مخصوص نہ ہو تو پھر ان چیزوں کیلئے مسجد سے نکل کر جا سکتے ہیں۔
در مختار مع رد المحتارج ۳ ص۴۳۵ ))
٭اگر مسجد میں وضوخانہ یا حوض وغیرہ نہ ہو تو مسجد سے وضو کیلئے جاسکتے ہیں۔
(رد المحتار ج ۳ ص ۴۳۵)
٭احتلام ہونے کی صورت میں اگر احاطہ مسجد میں نسل خانہ نہیں اور نہ ہی کسی طرح مسجد میں نسل کرنا ممکن ہو تو نسل جنابت کے لئے مسجد سے نکل کر جا سکتے ہیں ۔
(رد المحتار ج ۳ ص ۴۳۵)
٭قضائے حاجت کیلئے اگر گھر گئے تو طہارت کر کے فوراً چلے آئے، ٹھہرنے کی اجازت نہیں ۔ اور اگر آپ کا مکان مسجد سے دور ہے اور آپ کے دوست کا مکان قریب تو یہ ضروری نہیں کہ دوست کے یہاں قضائے حاجت کو جائیں ۔ بلکہ اپنے مکان پر بھی جاسکتے ہیں۔ اور اگر خود آپ کے اپنے دو مکان ہیں ایک نزدیک، دوسرا دور ، تو نزدیک والے مکان میں جائیے۔ بعض مشائخ رَحَمُھمُ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، دور والے مکان میں جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
اعتکاف توڑنے والی چیزوں کا بیان
آئیے اب ان چیزوں کا بیان سنتے ہیں جن کے کرنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
٭بلاضرورت شرعی حدود مسجد یعنی باؤنڈری والی سے باہر نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا، خواہ یہ نکلنا ایک ہی لمحے کیلئے ہو۔ جان بوجھ کر ہو یا بھول کر، یا غلطی سے، ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ اگر بھول کر یا غلطی سے باہر نکلیں گے تو اس سے اعتکاف توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا۔
(رد المحتار ج ۳ ص ۴۳۸)
٭اسی طرح آپ شرعی ضرورت سے مسجد سے باہر نکلے لیکن ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد ایک لمحے کیلئے بھی باہر ٹھہر گئے تو اس سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
( حاشية الطحطاوي على المراقي ص ٤٠٣)
٭اعتکاف کیلئے چونکہ روزہ شرط ہے، اس لئے روزہ توڑ دینے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ خواہ یہ روزہ کسی عذرے تو ڑا ہو یا بلا عذر، جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹا ہو، ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ غلطی سے روزہ ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ تو یاد تھا لیکن بے اختیار کوئی عمل ایسا ہو گیا جو روزے کے منافی تھا۔ مثلا صبح صادق طلوع ہونے کے بعد تک کھاتے رہے، یا غروب آفتاب سے پہلے ہی اذان شروع ہو گئی یا سائرن شروع ہو گیا اور افطار کر لیا پھر پتا چلا کہ اذان و سائرن وقت سے پہلے ہی ہو گئے تھے۔ اس طرح بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔ یا روزہ یاد ہونے کے باؤ نجود گلی کرتے وقت بے اختیار پانی خلق میں چلا گیا ، تو ان تمام صورتوں میں روزہ بھی جاتا رہا اور اعتکاف بھی ٹوٹ گیا ۔ اگر روزہ ہی یاد نہ رہا اور بھول کر کچھ کھا پی لیا ، تو اس سے نہ روزہ ٹوٹا اور نہ ہی اعتکاف ۔ وہ تمام امور جن کے ارتکاب سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اعتکاف بھی
ٹوٹ جاتا ہے ۔
٭بیوی سے ہمبستری کرنے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ خواہ یہ جان بوجھ کر کرے یا بھول کر ، دن میں کرے یا رات میں مسجد میں کرے یا مسجد سے باہر ، اس سے انزال ہو یا نہ ہو ، ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
(درمختار مع رد المحتار ج ۳ ص ۴۴۲)
٭بیوی کے ساتھ بوس و کناراعتکاف کی حالت میں نا جائز ہے مگر اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا اور اگر اس سے انزال ہو جائے تو اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
(رد المحتارج ۳ ص ۴۴۲)
٭پیشاب کرنے کیلئے مسجد سے باہر گیا اور قرض لینے والے نے روک لیا ، اعتکاف ٹوٹ گیا۔
(عالمگیری ج ۱ ص ۲۱۲)
٭اگر مختلف بے ہوش یا پاگل ہو گیا اور یہ بے ہوشی اتنی لمبی ہو جائے کہ روزہ نہ ہو سکے تو اعتکاف ٹوٹ گیا اور قضا واجب ہے۔ اگر چہ کئی سال کے بعد صحت مند ہو۔
(عالمگیری ج ا ص ۲۱۳)
٭مختلف کے لیے مسجد ہی میں کھانا پینا ضروری ہے ۔ ان امور کیلئے مسجد سے باہر جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(تبیین الحقائق ج ۲ ص ۲۲۹)
اگر کھانا لانے والا کوئی نہیں تو پھر مختلف کھانا لانے کیلئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے۔ لیکن مسجد میں لا کر کھانا کھائے۔ ٭
(البحر الرائق ج ۲ ص ۵۳۰)
٭اگر کوئی مرض کے علاج کیلئے مسجد سے نکلے تو اعتکاف ٹوٹ گیا اور اگر کسی معتکف کو نیند کی حالت میں چلنے کی بیماری ہو اور وہ نیند میں چلتے چلتے مسجد سے نکل گیا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
( رد المحتارج ۳ ص ۴۳۸)
٭اگر حالت اعتکاف میں عورت کو حیض آجائے تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(بدائع الصنائع ، ج ۲، ص ۲۸۷ دار احياء التراث العربی بیروت )
خواتین کا اعتکاف اور اس کے احکام
٭خواتین اپنے گھروں میں مسجد بیت میں اعتکاف کریں، یعنی وہ جگہ جو گھروں میں عام طور پر خواتین نماز کے لیے مخصوص کر لیتی ہیں (اسے مسجد بیت کہتے ہیں)۔ اگر گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی خاص جگہ مقرر نہ ہو، تو گھر میں کسی ایک جگہ کو متعین کر کے اعتکاف کریں۔
٭شادی شدہ خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعتکاف کے لیے اپنے شوہر سے اجازت حاصل کریں۔ شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کے لیے اعتکاف جائز نہیں۔
٭اگر بیوی نے شوہر کی اجازت سے اعتکاف شروع کر دیا اور بعد میں شوہر اسے منسوخ کرنا چاہے تو وہ نہیں کر سکتا، اور نہ ہی بیوی پر اس کی تعمیل واجب ہے۔
٭اعتکافِ سنت شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ اعتکاف کے دنوں میں حیض کے ایام تو آنے والے نہیں ہیں۔ اگر مخصوص ایام قریب ہیں تو اعتکاف شروع نہ کریں، کیونکہ اعتکاف کے لیے ضروری ہے کہ اعتکاف کرنے والی خواتین حیض و نفاس سے پاک ہوں۔
نوٹ: عورت کو بچے کی پیدائش کے بعد جو خون آتا ہے اسے نفاس کہتے ہیں۔ اس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن رات ہے۔ چالیس دن کے بعد اگر خون جاری رہے تو یہ بیماری ہے؛ اس صورت میں غسل کرکے نماز اور روزہ شروع کر دیں۔ حیض اس خون کو کہتے ہیں جو عورت کو ماہواری کے طور پر آتا ہے۔ اس کی کم از کم مدت تین دن اور تین راتیں، اور زیادہ سے زیادہ دس دن راتیں ہیں۔ اگر خون تین دن تین رات کے بعد بند ہو جائے تو غسل کرکے نماز شروع کر دیں، اور اگر دس دن کے بعد بھی جاری رہے تو یہ بیماری ہے۔ دس دن مکمل ہوتے ہی فوراً غسل کرکے نماز اور روزہ شروع کر دیں۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، خواتین اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔
٭اگر کسی خاتون نے اعتکاف کیا اور دورانِ اعتکاف ماہواری شروع ہوگئی، تو اس پر واجب ہے کہ فوراً اعتکاف چھوڑ دے۔ اس کے ذمے صرف اس ایک دن کی قضا ہوگی جس دن اس نے اعتکاف چھوڑا۔ قضا کا طریقہ یہ ہے کہ ماہواری ختم ہونے کے بعد کسی دن کا روزہ رکھ کر اعتکاف کر لے۔ اگر رمضان المبارک کے دن باقی ہوں تو رمضان میں بھی قضا کی جا سکتی ہے۔
٭خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعتکاف کی جگہ سے کسی شرعی ضرورت کے بغیر نہ نکلیں۔ اگر بلاعذر وہاں سے باہر گئیں، تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
٭خواتین اعتکاف کے دوران بیٹھے بیٹھے چھوٹے موٹے کام کر سکتی ہیں اور گھریلو امور سے متعلق دوسروں کو ہدایات دے سکتی ہیں، مگر خود اٹھ کر کسی کام کے لیے نہیں جا سکتیں۔
٭خواتینِ اسلام کو چاہیے کہ وہ اعتکاف کے دوران زیادہ سے زیادہ ذکر و فکر، توبہ و استغفار، تسبیح و تہلیل، نوافل، تلاوتِ قرآنِ مجید مع ترجمہ و تفسیر، اور درود و سلام میں وقت گزاریں۔ بالخصوص اپنی قضا نمازوں کا اہتمام کریں۔ قضا نمازوں میں صرف فرض نمازوں کی قضا کریں اور عشاء کے وتر بھی قضا کریں (یعنی انہیں پڑھیں)۔